نئی دہلی 22فروری:ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ اے راجہ نے مرکزی حکومت کی ’سہ لسانی پالیسی‘ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم علیحدگی پسند نہیں ہیں، لیکن مرکزی حکومت ہمیں علیحدگی پسند بننے پر مجبور کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے وزیر اعظم مودی کی لسانی پالیسی پر بھی سخت تنقید کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’وزیر اعظم نے ایک پروگرام میں کہا کہ کچھ لوگ زبان کے نام پر ملک کو الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو شک ہے کہ ہم زبان کے طور پر ملک کو تقسیم کریں گے تو کیا ہمیں اس بات پر شک نہیں کرنی چاہیے کہ آپ مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘‘ اے راجہ نے تنبیہ بھی دی ہے کہ اگر وزیر اعظم زبان کے ایشو پر بولنا جاری رکھتے ہیں تو اس کی سخت مخالفت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر آپ ابھی بھی زبان کے مسئلہ پر بیان دیتے ہیں تو ہمارے نائب وزیر اعلیٰ کہیں گے- واپس جاؤ، مودی اور ہم پارلیمنٹ میں کہیں گے- مودی چپ رہو۔‘‘ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی پارٹی علیحدگی پسندی کی وکالت نہیں کرتی ہے، لیکن مرکز کی پالیسیاں انہیں مجبور کر رہی ہیں۔ اے راجہ کے علاوہ تمل ناڈو کانگریس کے ریاستی صدر سیلواپرونتھاگئی نے بھی مرکز کی ’سہ لسانی پالیسی‘ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی تمل ناڈو میں آر ایس ایس کے نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ان کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔‘‘ واضح ہو کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ (21 فروری) کو کہا تھا کہ ’’ہندوستانی زبانوں کے درمیان کبھی کوئی دشمنی نہیں رہی، بلکہ وہ ایک دوسرے کو تقویت بخشتی رہی ہیں۔‘‘
ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے زبان کی بنیاد پر اختلاف پیدا کرنے والی غلط فہمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حکومت ملک کی ہر زبان کو مین اسٹریم کا حصہ سمجھتی ہے۔ زبانوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کو متاثر کیا ہے اور اسے تقویت بخشی ہے۔ جب زبان کی بنیاد پر تقسیم کی کوشش کی جاتی ہے تو ہماری مشترکہ لسانی وراثت اس کا مضبوط جواب پیش کرتی ہے۔ تمام زبانوں کو تسلیم کرنا اور اس کو قبول کرنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے۔‘