بھوپال:6؍اپریل: اسوقت غزہ اور اہل فلسطین کےاحباب بڑے ہی دکھ بھرے حالات ہیں اور تمام دنیا کے دانشور اور امت کے غمخوار علماء اور لیڈران مگر مچھ کے آنسو بھی بہارہے ہیں اور مساجد میں دعائیں بھی ہورہی ہیں اور ہمدردی کا اظہار بھی ہورہا ہے اہل فلسطین سے اور دنیا کی مسلم لا بی خاموش ہے۔ اور اس برے وقت میں ان مجاہدین کو لٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے مگر میں کہنا چاہتا ہو ہمدردان بہی قوم سے عاجزانہ انداز میں اگر واقعی آپ سنجیدہ ہوتے ان معصوم بچوں اور عفت زادی بہنوں کے لیے تو آج حالات اسطرح نہی ہوتے بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوتامگر ابھی تک اک لفظ بھی کسی عالم مولوی غمگسار لیڈرقلم کے مجاہد کا نہی سنا کہ اس سال ہم رمضان میں عید کی خریدو فروخت نہیں کریں، نئے کپڑے نہیں بنائی گئیں، مارکیٹوں کا حال بالکل برعکس ہے، اہل فلسطین سے ہمدردی کے لیے بائکاٹ کاشور تو بہت سناہے اسرائیلی حکومت ظالم ہے یہ سب جانتے ہیں مگر افسوس ہے ارباب حل وعقد کی بیحسی پر اور تکلیف ہوتی ہے امت کی یتیمی پر ارے یہ بات مسجدوں کے ممبروں سے امت کو سمجھائے جاتی یہ ہماری اجتماعی اور ملی زمہداری کا تقاضہ تھا کہ ہم اور ہماری اولاد اس سال کپڑے نہی بنائے گی ،بالکل سادہ انداز میں رمضان کا وقت گزرے گا عید پر شیر خورمہ نیا لباس زیب تن نہیں ہوگا۔ اگر یہ ماحول بنایا جاتا اور شروع سے اسپر عمل ہوتا تو یقینا جو ہندوستانی لا بی اسرائیل کی معاون ہے اسکی کمر ٹوٹ جاتی اور یہی رقم اہل فلسطین کی معاونت میں کام آتی مگر افسوس ایسا کچھ نظر نہی آیا صرف زبانی جمع خرچ رہا اور دعاؤں میں گھڑیالی آنسوں بہاکر دعاوں پر اکتفاء ہوا حالانکہ سیرت دعاء سے پہلے تدبیر اختیار کرنے کو بتاتی ہے بدر احد وغیرہ کے حالات دیکھیں اللہ ہمکو ہدائت دے گستاخی معاف بڑی تکلیف میں یہ چند الفاظ تحریر کیے ہیں العاجز۔