ہلدوانی فسادمعاملہ:گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کیلئے جمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد شروع،اپنے اسکول اورعبادت گاہ کو بچانے کیلئے احتجاج کرنے والے دہشت گردکیسے ہوسکتے ہیں: مولانا ارشدمدنی

0
10

نئی دہلی، 8 جون (یو این آئی) ہلدوانی فسادکے سلسلے میں پولس کی زیادتی کا شکار20مسلم نوجوانوں کی ضمانت کی عرضی پر گزشتہ روز اتراکھنڈہائی کورٹ (نینی تال)میں سماعت عمل میں آئی جس کے بعد ہائی کورٹ کی دورکنی بینچ نے اسے سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو تین ہفتوں کے اندرجواب داخل کرنے کا حکم دیا اورمعاملہ کی سماعت 4جولائی تک کے لئے ملتوی کردی۔ جمعیۃ علماء کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق جسٹس منوج کمارتیواری اورجسٹس پنکج پروہت پر مشتمل دورکنی بینچ کے روبرو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ کی سینئر ایڈوکیٹ نتیارامن کرشنن نے مدلل بحث کرتے ہوئے بتایا کہ تفتیشی ایجنسی نے 90دن کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی عدالت میں چارشیٹ نہیں داخل کی اور ملزمین وان کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر عدالت سے مزید 28دنوں کی مہلت طلب کرلی جوقانوناغلط ہے لہذا کریمنل پروسیجرکورٹ کی دفعہ 167اور یواے پی اے قانون کی دفعہ 43ڈی (2)کے تحت ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت منظورکی جائے، جس پر سرکاری وکیل نے ضمانت کی عرضی پر اعتراض داخل کرنے کے لئے وقت طلب کیا۔واضح رہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیارامن کرشنن کے ہمراہ ایڈوکیٹ مجاہداحمد، ایڈوکیٹ نیتن تیواری، ایڈوکیٹ منیش پانڈے، ایڈوکیٹ وجے پانڈے ودیگر پیش ہوئے جبکہ اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جے ایس ورک اورایڈوکیٹ آرکے جوشی پیش ہوئے۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ 90دن کی مقررہ مدت گزرجانے کے بعد چارج شیٹ داخل نہ کرنا یہ بتاتاہے کہ پولس قانون وانصاف کو بالائے طاق رکھ کر جانبدارای کا مظاہرہ کررہی ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات تویہ ہے کہ ملزمین اوران کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر حیلوں بہانوں سے عدالت کے ذریعہ مزید 28دنوں کی مہلت طلب کرلی گئی۔ انہوں نے دعوی کیا کہ پولس اورتفتیشی اداروں کے تعصب اورجانبداری کا یہ کوئی پہلامعاملہ نہیں ہے مسلمانوں سے جڑے زیادہ ترمعاملوں میں تقریبا ہر ریاست کی پولس کارویہ یکساں ہوتاہے، قانون کے مطابق 90دن کے اندرچارج شیٹ داخل کردی جانی چاہئے تاکہ ملزم بنایا گیا شخص اپنی رہائی کے لئے قانونی عمل شروع کرسکے، لیکن یہ کس قدرافسوسناک بات ہے کہ اس ہدایت پر عمل نہیں کیاجاتا۔مولانا مدنی نے کہا کہ تفتیشی ایجنسیوں اورپولس کا یہ طرزعمل انسانی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس سے انصاف کے حصول میں تاخیر ہوجاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ان گرفتارشدگان میں 7خواتین بھی شامل ہیں اوران سب پر یواے پی اے قانون کا اطلاق کردیا گیا ہے۔