نئی دہلی13فروری: پنجاب-ہریانہ سرحد پر کسان تنظیموں کے دہلی کی طرف مارچ اور احتجاج کی وجہ سے بدنظمی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ سے منگل (13 فروری) کو پنجاب میں ڈیزل اور گیس کی سپلائی پر بھاری اثر پڑا۔ سرحد پر موجودہ حالات کی بنا پر صوبہ میں ڈیزل کی 50 فیصد جبکہ گیس کی 20 فیصد کم فراہمی ہوئی۔ خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے ڈیزل-گیس کی مناسب طریقے سے سپلائی کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ پنجاب-ہریانہ سرحد پر کسانوں کے شدید احتجاج کے باعث صورتحال مزید خراب ہو گئی ہیں۔ مرکز کے خلاف دہلی کی طرف مارچ کرنے والے مظاہرین کسانوں کی حکومت سے بارہ مطالبات ہیں، جنہیں وہ ان کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس بار کا کسان احتجاج 2020 سے مختلف ہے، جس میں راکیش ٹکیت، نریش ٹکیت اور دیگر بڑے رہنما شامل نہیں ہوئے ہیں۔ اس مرتبہ کسانوں کے احتجاج کو سنیوکت کسان مورچہ اور پنجاب کسان مزدور سنگھرش کمیٹی کی جانب سے بلایا گیا ہے، جس کی قیادت کسان یونین کے رہنما جگجیت سنگھ ڈلیوال اور سروان سنگھ پنڈھیر کر رہے ہیں۔ دونوں ہی رہنما پنجاب کے کسانوں کی مانگوں کو وقتاً فوقتاً اہمیت کے ساتھ اٹھاتے رہے ہیں۔ مظاہرین کسانوں کا الزام ہے کہ مرکز نے ان کی فصل کی بہتر قیمت دینے کا وعدہ کیا تھا، جس کے بعد کسانوں نے 2021 کا اپنا احتجاج ختم کر دیا تھا۔ کسان تنظیمیں سوامیناتھن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق تمام فصلوں کے لئے کم از کم سپورٹ قیمت (ایم ایس پی) کی ضمانت دینے والا قانون بنانے کی مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، مکمل قرض معافی اور کسانوں و زرعی مزدوروں کو پنشن فراہم کرنے کی اسکیم کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں۔
ADVERTISEMENT
کسانوں کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ بجلی ترمیم بل 2020 کو منسوخ کیا جائے اور زمین حصول قانون 2013 کو دوبارہ نافذ کیا جائے، کسانوں کی رضامندی کو یقینی بنایا جائے اور کلکٹر شرح سے چار گنا زیادہ معاوضہ دینے کی شدید مانگ پر قائم ہیں۔
کسان تنظیمیں چاہتی ہیں کہ لکھیم پور کھیری قتل کیس میں ملوث افراد کو سزا دلوانے کا مطالبہ کیا جائے. انہوں نے 2021 کے کسان احتجاج کے دوران مارے گئے کسانوں کے لواحقین کو معاوضہ دینے اور خاندان کے ایک فرد کو نوکری دینے کی بھی درخواست کی ہے. اس کے علاوہ وہ دیگر کئی مطالبات کو پورا کرانے کے لئے دہلی آنے کی کوشش میں مصروف ہیں.