ہردا، ساگر، 24 اپریل (یو این آئی) ‘وراثتی ٹیکس‘ کے تعلق سے کانگریس کے ایک لیڈر کے بیان کو لے کر ملک گیر تنازعہ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے آج کہا کہ اس ٹیکس کو نافذ کرنے کی کانگریس کی پرانی خواہش ہے، پارٹی اس کی وکالت پہلے بھی کر چکی ہے اور کانگریس اس سے انکار نہیں کر سکتی۔مسٹرمودی مدھیہ پردیش کے ہردا میں بیتول پارلیمانی حلقہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کی حمایت میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ اس سے کچھ دیر پہلے انہوں نے ساگر پارلیمانی حلقہ میں ہوئی انتخابی میٹنگ میں بھی اس معاملے پر کانگریس کو گھیرا تھا۔وزیر اعظم نے کہا کہ کانگریس کے ‘شہزادے کے ایک مشیر نے کہا ہے کہ ہندوستان میں ‘وراثتی ٹیکس لگنا چاہیے، یعنی جو کچھ آپ کے دادا نانا بچایا ہے اور جو کچھ آپ کو ان کے مرنے کے بعد ملے گا، اس میں سے آدھا کانگریس حکومت ہڑپنا چاہتی ہے۔ انہوں نے وہاں موجود ہجوم سے پوچھا کہ آپ کے والدین نے جو کچھ چھوڑا ہے، اس پر آپ کا حق ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بیان پر ہنگامہ آرائی کے بعد کانگریس کہہ رہی ہے کہ یہ ان کے مشیر کی ذاتی رائے ہے۔ اس سلسلے میں حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2011 میں بھی کانگریس نے اس ٹیکس کی وکالت کی تھی۔ اس وقت کے ایک سینئر وزیر نے پلاننگ کمیشن میں کہا تھا کہ اس ٹیکس پر غور کیا جائے۔ کانگریس اس ٹیکس کو نافذ کرنے کی دیرینہ خواہش رکھتی ہے۔ کانگریس اس سے انکار نہیں کر سکتی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ کچھ چھوڑنے کی روایت ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نواسوں پوتے کی شادی میں کام آنے کے لئے رقم بچاتے ہیں۔ وہ اسے دہائیوں تک محفوظ رکھتے ہیں اور مصیبت کے وقت بھی اسے باہر نہیں نکالتے۔ جائیں تو اپنے بچوں کے لئے کچھ چھوڑ کر جائیں۔ اب یہ (کانگریس) کہہ رہے ہیں کہ جو چھوڑوگے، اس کا آدھا حصہ ہمارا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ کانگریس کا منتر ہے، کانگریس کی لوٹ، زندگی کے ساتھ بھی، زندگی کے بعد بھی۔ اس لیے کانگریس سے بہت محتاط رہنا ہوگا۔کانگریس کے مشیر اور انڈین اوورسیز کانگریس کے ڈائریکٹر سیم پترودا نے اس ٹیکس کی تجویز دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ میں اس قسم کے ٹیکس کا التزام ہے اور ہندوستان میں بھی اس پر بات ہونی چاہئے۔وزیر اعظم نے اپنی دونوں میٹنگوں میں ریزرویشن کے معاملے پر بھی کانگریس کو گھیرا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا پوشیدہ ایجنڈا کھل کرملک کے سامنے آچکا ہے۔ سیکولرازم کے نام پر ووٹ بینک کی سیاست کرنے والی کانگریس نے سماجی انصاف کے بنیادی احساس کا قتل کیا ہے۔ یہ کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ کانگریس دلتوں، پسماندہ طبقات اور قبائلیوں سے کتنی نفرت کرتی ہے۔ آزادی کے بعد کانگریس کو سب سے بڑی مخالفت بابا صاحب امبیڈکر نے کی تھی۔ وہ ایک وژنری تھے، انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ کس طرح کانگریس ملک کو زوال کے راستے پر لے جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب مرکز میں کانگریس کی حکومت بنی تو انہوں نے سب سے پہلے آندھرا پردیش میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن شروع کیا۔ تب کانگریس اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوئی، لیکن کانگریس اب بھی وہ کھیل کھیلنا چاہتی ہے، چھپ چھپ کر اور پردے کے پیچھے رہ کر ملک والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وہ کھیل کھیلنا چاہتی ہے۔ کانگریس نے کرناٹک میں او بی سی ریزرویشن کوٹہ سے ریزرویشن کا حصہ چھیننے کے لیے پچھلے دروازے سے کرناٹ کرناٹک کے تمام مسلمانوں کو او بی سی بنادیا اور او بی سی ریزرویشن چھیننے کی سازش پکی کردی۔ یہ پورے ملک کی او بی سی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کانگریس اپنے منشور میں بھی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی بات کر رہی ہے۔
مسٹرمودی نے کہا کہ تلنگانہ کے کانگریس کے وزیراعلیٰ نے نام لے کر کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کو یقینی بنائیں گے۔ کانگریس اپنے ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ کانگریس ملک کے عوام کی جائیداد چھین کراسے بھی اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی تیاری میں ہے۔ اگر کار گھر ایک سے زیادہ ہوں گے تو وہ قانون کے مطابق اسے ضبط کر لے گی۔ کانگریس کہہ رہی ہے کہ آپ کے پاس صرف ایک گھر ہو سکتا ہے، اگر آپ کے پاس دو ہیں تو وہ اپنے خاص لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔