تحریر: شگفتہ فرحت،کراچی ،پاکستان
شہر غزل بھوپال نے یوں تو نامور شاعروں کو جنم دیا کیونکہ یہاں کی مٹی بہت مردم خیز ہے لیکن بھوپال سے باہرسے آئے ہوئے شعراء نے بھی بھوپال کی سرزمین پر قدم رکھا اور یہاں سکونت اختیار کی تو نہ صرف اہل بھوپال نے ان کا بھرپور انداز میں سواگت کیا بلکہ ان کو بھوپال کے ادبی منظر نامے میں اپنانمایاں کردار اداکرنے کے لیے جگہ دی،اپنا دل اورجگر ان کے لیے واردیا۔ بے شمار شاعروں اور ادیبوں نے بھوپال میں آکر اپنی ادبی سرگرمیوں کو جاری وساری رکھا اور واضح طورپر ایک جداگانہ ادبی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر احساؔن اعظمی کا بھی ہے جن کا آبائی وطن اعظم گڑھ (یوپی)ہے ، مگر وہ 1994میں فضیلت مدرسہ الاصلاح سرائے میراعظم گڑھ سے تعلیم پاکر جامعہ ہمدردیونیورسٹی نئی دہلی، ایم ڈی جامعہ ہمدرد یونیورسٹی وغیرہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ بعدازاں مختلف ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے،سیمیناروں میں بحیثیت مقالہ نگار شرکت کی۔
شاعری کا شوق بدرجہ اتم موجودتھا،اسی لئے اکثر مشاعروں میں شاعر کی حیثیت سے اور ناظم مشاعرہ کے طور پر انہیں احترام کیساتھ مدعو کیا جاتا ہے ، شعر وادب کی خدمت کے اعتراف میں ڈاکٹر احسان اعظمی کو مدھیہ پردیش اُردو اکیڈمی بھوپال کی جانب سے اعزاز وایوارڈ سے سرفراز کیاگیا۔کہکشاں ادب بھوپال بھی انکی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں پیچھے نہیں رہی،اس پلیٹ فارم سے بھی انکواعزاز وایوارڈ عطا کیاگیا۔بے شمار ادبی وطبی تنظیموں نے بھی ان کے ساتھ ادبی شاموں کا انعقاد کیا اور اعزازات سے نوازا۔
حال ہی میں ڈاکٹر احساؔن اعظمی کا غزلوں پر مشتمل مجموعہ’’شور سکوت شب‘‘نظرنواز ہوا اگرچہ کہ ڈاکٹر احساؔن اعظمی سے ہمارا رابطہ رہتا ہے لیکن ہمیں اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ اعظم گڑھ کے علاوہ بھوپال میں ان کے چاہنے والوں، شاعری کو سراہنے والوں کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے ،جب ہی تو یہ اپنی شاعری کا سفر تواتر کے ساتھ طے کررہے ہیں۔انہوں نے ’’شورسکوتِ شب‘‘ کا انتساب، اپنی زندگی کی ساتھی ، کل کائنات اور ماشاء اللہ کافی بہتر اہلیہ سُمیہ کے نام موسوم کیا ہے ، ان اشعار کے خراج تحسین کیساتھ
تمہی کو سامنے رکھ کر غزل کا بُت تراشا ہے
مجھے آرزو بنا ڈالا ہے جس نے وہ تمہی تم ہو
تمہارے ہاتھ میں احساؔن کی قسمت کا خاصا ہے
تنزل ہو، ترقی ہو، تاخر ہو، تقدم ہو
قارئین کرام! آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر احساؔن اعظمی کے دل میں اپنی اہلیہ کے لئے کس قدر محبت ،خلوص اور بہترین جذبات ہیں جو دیگر شعراء کے لئے مشعل راہ ہیں۔ڈاکٹر احسان اعظمی کی غزلوں کے مجموعہ ’’شور سکوتِ شب‘‘ میں بھوپال کے معروف شعراء کوثر صدیقی،ضیاء فاروقی، عبداللہ ندیم(بمبئی) نے جہاں اپنے زرّین خیالات سے نوازا ہے وہاں موصوف نے بھی اپنی آب بیتی یعنی شاعری کے راستے پر وہ کیسے گامزن ہوئے بہت مؤثرانداز میں بیان کی ہے۔
کوثرؔ صدیقی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر احسان اعظمی کابھوپال کے ادبی منظر نامے پر اضافہ بھوپال کی غزل کے روشن مستقبل کی خبردے رہا ہے ، ہمیں خوشی ہے کہ اعظم گڑھ یوپی کا یہ تحفہ شہر بھوپال کے حصے میں آیا۔’’شور سکوتِ شب‘‘ کی اشاعت پر ہماری جانب سے خراج تحسین ہے۔ بقول شاعر
شور سکوتِ شب کی غزل شاد کام باد
مقبول بارگاہِ خواص و عوام باد
ضیاء فاروقی کاکہنا ہے کہ ڈاکٹر احسان اعظمی کا اصل وطن اعظم گڑھ یوپی ہے ،وہاں سے بڑے بڑے علمی وادبی جواہر آئے اور چھاگئے یہاں کی مٹی کی بڑی مردم خیز ہے جہاں سے ڈاکٹر احسان اعظمی نے جنم لیا، علم وادب دونوں میں کمال حاصل کیا۔اُنہوں نے اپنی غزلوں میں سادہ اور آسان زبان استعمال کی جبکہ عام موضوعات میں بھی وہ اپنا فکر انگیز پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان کا یہ شعر ضیاء فاروقی کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بہت اچھا لگا
اب اِن سے جنگ نہیں صلح کی ضرورت ہے
نکل پڑے ہیں ہتھیلی پہ جو حیات لیے
ان کا مجموعۂ کلام پڑھکر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری ابھی اور بلندیوں تک جائے گی۔
عبداللہ ندیم بمبئی اپنے تبصرے میں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر احسان اعظمی کے شعری مجموعہ’’شور سکوتِ شب‘‘ کی قرأت ہمیں بیداری فکروشعور سے روشناس کراتی ہے۔ ان کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت، زبان کی صحت اور اُس کا بہترین استعمال ہے،اس کا اُنہوں نے خاص خیال رکھا ہے۔وہ الفاظ کے حسن استعمال سے واقف ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے اشعار میں ایک ایسی کیفیت پیداکردیتے ہیں کہ ایک نیاجہاں روشن ہوجاتا ہے ۔۔یہ شعر ملاحظہ کیجئے
کمال شدت احساس ہمدردی بھی کیا شے ہے
کسی کا درد ہو ہم کو ہمارا درد لگتا ہے
ان کا مجموعۂ کلام پڑھکر یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ شاعری کے میدان میں اور آگے بڑھیں گے اور فتوحات کے جھنڈے گاڑتے چلے جائیں گے۔
ڈاکٹر احسان اعظمی نے اگرچہ کہ اپنی شاعری کاسلسلہ 1989سے شروع کیا مگراُنہیں ابتداء میں ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ شاعری تعلیم پر اثرانداز ہورہی ہے تو اُنہوں نے یہ سلسلہ منقطع کیا اور تعلیم پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد دوبارہ شاعری کی جانب آئے۔اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم کو پہلے اہمیت دیتے ہیں اور شوق کو بعدمیں، اعظم گڑھ میں ادبی میدان میں نمایاں طور پر حصہ لیا، شعرگوئی کے علاوہ ادبی تقریبات کی بھرپور نظامت بھی کی، گویا ڈاکٹر احسان اعظمی بھوپال ،اعظم گڑھ سے ہی منجھ کرآئے تھے۔2010 میں بھوپال آنے کے بعد پھر شعری سفرکاپھرسے آغاز کیا کیونکہ اس میدان میں یکتا تھے اس لیے زیادہ دشواری نہیں ہوئی پھر بھوپال والے تو بہت محبت اور خلوص رکھتے ہیں،ان کو شاعری سمیت ہاتھوں ، ہاتھ لیا گیا۔اتنی بھرپوراورپراثرشاعری کی کہ جلدہی اپنا پہلامجموعۂ کلام’’شورسکوتِ شب‘‘منظر عام پرلے آئے۔
ڈاکٹر احسان اعظمی کے اس پہلے مجموعے نے بہت پذیرائی حاصل کی، تمام غزلیں تو نہیں پڑھ پائے لیکن چند بہت اچھی لگیں،مثلاً
جب بھی ترے جمال سے اُلجھی ہے روشنی
یوں نیند ٹوٹی ہے پلکوں پہ خواب ہوتے ہوئے
یہ جو خلاف ہمارے ابھی زمانہ ہے
کبھی کبھی تو لگو کچھ خفا خفا سے بھی
بِنا تمہارے جو خالی مکان لگتا ہے
میں جس کی ڈھال بنا تو خفا زمانہ ہوا
اور بھی بے شمار اشعار ہیں جو سیدھے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں ، مدھیہ پردیش اُردو اکیڈمی بھوپال کی کرتا دھرتا متحرک ادبی وثقافتی شخصیت معروف عالمی شہرت یافتہ شاعرہ ڈاکٹر نصرت مہدی ہیں،انہوں نے یہ کام بہت اچھا کیا کہ غزل کی درس وتدریس اور نئی نسل کو آگہی دینے کے لیے اکیڈمی میں خصوصی کلاسز کا انعقاد کیاگیا ہے ،اس سلسلے میں ڈاکٹر احسان اعظمی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جواپنا کام ماشاء اللہ بخیر وخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس طرح کی علمی اور ادبی شخصیات کی خدمات حاصل کرنا، نئی نسل کے ادبی رجحانات کو پروان چڑھانے کے لیے اکیڈمی کا ایک خوشگوار عمل ہے۔
ان سطور کے ذریعے ڈاکٹر احسان اعظمی کوہماری جانب سے ان کے اوّلین مجموعۂ کلام ’’شورسکوتِ شب ‘‘ کی اشاعت پر دلی مبارکباد، اس دُعا کیساتھ کہ وہ آسمان شاعری پر اس طرح چمکیں کہ اس کی روشنی اکنافِ عالم تک پھیل جائے۔