پرانے سال کے ختم ہونے اور نئے سال کے آنے پر ایسا لگتا ہے جیسے پلک جھپکتے ایک سال گزر گیا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہم مشینی زندگی گزارنے لگے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے، گزرتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی مثال اُس ٹرین جیسی ہے جو سست رفتاری سے چلتی ہے تو کھڑکی کے باہر کے مناظر پر نگاہ ٹھہرتی ہے مگر جب وہی ٹرین تیز رفتاری سے گزرتی ہے تو کوئی منظر نگاہ میں نہیں ٹھہرتا۔ ہماری مصروفیتیں ہمیں اس حد تک غارت و غلطاں رکھتی ہیں کہ وقت کی گزران اور اس کے خسران کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ پھر ہم حیران رہتے ہیں کہ دن کہاں گیا پتہ ہی نہ چلا، ہفتہ کیسے گزر گیا احساس ہی نہیں ہوا۔ سال کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ابھی جنوری تھا، ابھی مارچ اپریل آگیا، ابھی ستمبر اکتوبر آدھمکا اور اب لیجئے دسمبر۔ حقیقت یہ ہے کہ کلینڈر نہایت تیزی سے بدلنے لگا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے فاضل وقت کو کارآمد طریقے سے گزارنے کی کوشش بھی ترک کردی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ انسان جتنی دیر تک معاشی اُلجھنوں میں گرفتار رہتا، اُتنی دیر تک تو اسے گزرنے والے وقت کا احساس نہیں ہوتا تھا مگر جب وہ فارغ ہوتا تھا تو اپنے مشاغل میں وقت گزارتا تھا، اہل خانہ سے خوش گپیاں کرتا تھا، لطف اندوز ہوتا تھا اور وقت کو گزرتا ہوا محسوس کرتا تھا۔ اب حالات اس حد تک بدل چکے ہیں کہ ہم خود بھی ان کے تغیر کا جائزہ لینا چاہیں تو ایسا نہیں کرسکتے۔ ویسے، ہمارے پاس اس کا بھی وقت نہیں رہ گیا ہے۔
وقت کے گزرنے کو محسوس نہ کرنے والے ہم لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ ہمارا سفر ایک نہ ایک دن ختم ہونے والا ہے۔ کب ختم ہوگا اس کی کسی کو خبر نہیں مگر اتنی خبر ضرور ہے اور یہ پکی خبر ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ سفر تمام ہوگا۔بہ الفاظ دیگر، ہم اب تک کتنا سفر طے کرچکے ہیں اس کا اندازہ تو سب کو ہے مگر کتنا سفر باقی رہ گیا ہے، اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے۔ اسی لئے سمجھایا جاتا ہے کہ انسان اپنے ہر دن کو زندگی کا آخری دن سمجھے اور اسی مناسبت سے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرے مگر ایسا نہیں ہوپاتا۔ ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے پاس بہت وقت ہے۔اسی لئے جب وقت ضائع ہوتا ہے تو اُسے فکر لاحق نہیں ہوتی۔ ایسے دور میں جب وقت تیزی سے گزرنے لگا ہو یا گزرتا ہوا محسوس نہ ہوتا ہو، ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان وقت کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کی کوشش کرے۔ اس کوشش میں غوروخوض بھی ہو، فکر دُنیا بھی ہو، فکر آخرت بھی ہو، فکر اقرباء بھی ہو، فکر احباب بھی ہو، فکر متعلقین بھی ہو اور یہ فکر روزانہ کی جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سال میں ایک دن یا مہینے میں ایک دن اس کیلئے مختص کرلیا اور کچھ باتوں پر غور کرلیا، کچھ باتوں کی فکر کرلی اور اطمینان کرلیا کہ فرض ادا ہوگیا۔ کون نہیں جانتا کہ دورِ حاضر میں اگر دولت کا ارتکاز بڑے پیمانے پر جاری ہے تو ہر طرف مسائل کا انبار بھی ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ جابجا غم بکھرے پڑے ہیں۔ نا آسودگی ہے، بے اطمینانی ہے، آنسو ہیں، فریادیں ہیں۔ وقت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ کسی کا غم ہلکا کردیا جائے، کسی کا آنسو پونچھ دیا جائے، کسی سے ہمدردانہ لہجے میں گفتگو کرلی جائے تاکہ اس کی ڈھارس بندھے اور اگر کسی کی مشکل آسان کرنے کی استطاعت ہو تو اِس کارِ خیر میں پہل کی جائے۔ یہ سب ہوگا تو گزرنے والے وقت میں نقصان نہیں دکھائی دے گا۔ یہ اطمینان رہے گا کہ ہم نے کچھ تو کیا ہے۔