صدر منزل کے فرسٹ فلور کے کارنر پر ایک لوکیشن سے بڑا تالاب نظر آتا ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی کافی شاپ بنائی جارہی ہے۔ اس وی وی آئی پی کافی شاپ میں صرف دو لوگ بیٹھ سکیں گے۔ اسکے لئے پری (ایڈوانس ) بکنگ ہوگی۔ ایوننگ کافی شاپ کا کانسیپٹ یہ ہے کہ دو لوگ کچھ دیر سکون سے یہاں بیٹھ سکیں۔ اسی فلور پر دربار ہال کے اوپر ایک بڑی کافی شاپ بھی بن رہی ہے۔

ہماری تارےخی ےادگارےں ، ہماری وراثتےں ،ہمارا آئےنہ ہےں ۔ ہم اس آئےنے مےں اپنے ماضی کو دےکھ کر اپنے مستقبل کو سنوار سکتے ہےں ۔ ورنہ آنے والی نسلےں ہمےں کوسےں گی ، برا کہےں گی،صرف اور صرف اپنی وراثتوں کے بہترےن رکھ رکھاﺅ، دےکھ بھال سے ہم ٹورزم کی دنےا مےں ٹاپ پر سرفہرست آسکتے ہےں ۔تاج محل، اجنتا کے پےگوڈا ، کوکن کا سورےہ مندر، سانچی کا استوپ جےسے عجائبات ہمارے پاس ہےں ، پھر بھی ہم دنےا مےں ٹورزم مےں 46وےں مقام پر ہےں ۔جے پور سے دس گنا زےادہ مےن مےڈ /انسان کی بنائی ہوئی ہےرٹےج بھوپال مےں ہےں ۔ اودے پور سے دس گنا زےادہ نےچرل/ قدرتی ہےری ٹےج ہمارے پاس ہےں، پھر بھی بھوپال پھسڈی۔بھوپال رےاست مےں 435دھروہر اور صرف بھوپال شہر مےں 247دھروہر ہونے کے باوجود اُن کی دےکھ بھال کا کوئی مےکنزم نہےں ہے۔
خوش قسمت صدر منزل
بھوپال کی عالی شان اور خوش نما شاہی عمارتوں مےں صدر منزل کو خاص اہمےت حاسل ہے، ےہ عمارت زمانہ کے الٹ پھےر اور لاپرواہی کے باوجود خوش قسمتی سے آج بھی محفوظ ہے، صدر منزل رےاستی دور مےںبہت خوبصورت اور دلکش تھی ۔
ان کی مہربانی کا نتےجہ
نواب شاہجہاں بےگم : بھوپال کی نواب شاہجہاں بےگم کو دلّی کے بادشاہ شاہجہاں کی طرح عمارتےں بنوانے کا شوق تھا، شہنشاہ شاہجہاں کے پاس عظےم سلطنت تھی اور دولت کی کمی نہ تھی ،اُس کے حکم پر سےنکڑوں کاری گر اور فنکار وغےرہ دنےا سے آکر دہلی اور آگرہ آکر اپنا دل و جان لگانے پہنچ جاتے تھے۔ اُس کے مقابلہ مےں بھوپال کی حےثےت و حقےقت ۔پھر بھی بھوپال کی نواب شاہجہاںبےگم نے اپنے محدود ذرائع سے وہ کام انجام دےا جوا ن کی ےاد ہمےشہ دلاتا رہے گا۔ صدر منزل کی ابتداءشاہجہاں بےگم نے کی تھی ۔ حقےقت مےںاےک بہتر منصوبہ بندی سے دربار ہال بناےا ۔ سنہ 1884ئ مےں تاج محل (بھوپال) منتقل ہونے تک ےہاں پر رہائش پذےر رہےں ۔
نواب سلطان جہاں بےگم : نواب احمد علی خاں نے اپنی اہلےہ سلطان جہاں کےلئے صدر منزل نام سے محل تعمےر کراےا ۔ اسی کے ساتھ آصفےہ مسجد بھی ، جس کا اےک راستہ صدر منزل کے اندر سے بنواےا ۔ دوسرا راستہ حمےد منزل کے پےچھے سے ۔ صدر منزل کی مکمل تعمےر سلطان جہاںبےگم کے شوہر نواب احمد علی خاں نے کرائی ۔4 جولائی 1901ءکو سلطان جہاں بےگم کی تخت نشےنی کا جشن ’دربار عام ‘ کی شکل مےں بہت دھوم دھام سے مناےا گےا۔ 1905تک سلطان جہاںبےگم کا قےام اسی مےں رہا ، پھر ان کی رہائش احمد آباد مےں منتقل ہوجانے کے بعد اس شاندار دربار ہال کا استعمال کبھی کوئی تو کبھی کوئی کرتا رہا ۔ اور سب سے آخر مےں بھوپال مےونسپل کارپورےشن کا صدر دفتر ےہاں قائم ہوگےا۔ اب اس کی تجدےد کاری کرکے ہوٹل بنا دےا گےا۔
صدر منزل کےلئے عظےم کام
نواب حمےد اللہ خاں :نواب حمےد اللہ کی پےدائش صدر منزل سے ملحقہ حمےد منزل مےں ہوئی،نواب بننے کے بعد نواب صاحب نے صدر منزل کو بخوبی استعمال کےا ۔رائل اجلاس، عےد کے اجلاس وغےرہ اسی صدر منزل مےں ہوتے تھے ۔ دوسری رےاستوں کے خزانوں مےں دھول چڑھ رہی تھی مگر رےاست بھوپال کا خزانہ جےوں کا تےوں تھا۔جب ہندوستان انگرےزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تو انہوں نے اپنا پوراخزانہ سرکار کو دے دےا۔ اُس کے بعد نواب صاحب نے اپنی ذاتی جائےداد صدر منزل بھی سرکار کو دے دی ۔ ظاہر ہے کہ اےک اچھا انسان ہی بہتر وراثت چھوڑ سکتا ہے۔
امّی کا نام رکھا بےگم نے :
17 مئی 1926عےسوی، والا قدر نانا سردار ولاےت محمد خاں نے سرکار عالےہ سلطان جہاں بےگم کو اطلاع دی کہ ”مےرے گھر آج بےٹی پےدا ہوئی ہے“۔ بےگم بولےں ”ارے واہ “ آج تومبارک دن ہے“۔ آج ہی مےں تخت و تاج اپنے بےٹے حمےد اللہ کو دےنے کا اعلان کررہی ہوں۔ اس مبارک موقعہ پر مبارک دن کی وجہ سے بےٹی کا نام ”مبارک جہاں“ رکھا گےا ۔
دنےا کا سب سے پرفےکٹ پروگرام صدر منزل مےں :
1926عےسوی مےں سلطان جہاں بےگم کی ےوم پےدائش 9 جون کو صدر منزل مےں جانشےنی کا دربار منعقد کےا گےا، ےہ دربار تارےخ عالم مےں بے مثال واقعہ تھا۔پورے شہر کو جھنڈےوں سے سجاےا گےا تھا ۔گارڈ آف نر کا اہتمام تھا، صدر منزل کے دالانوں مےںدربارےوں کے لئے انتظام تھا، گےلرےوں مےں مستورات کا انتظام تھا جس مےں چغےں کے پردے آوےزاں تھے۔ درمےان مےں پڑے تخت پر تےن گنگا جمنی کرسےاں تھےں ، قاضی صاحب، دھرم شاستری اور جاگےر داروں کےلئے کرسےاں تھےں ، ےہ تمام واقعات مےر ے والد پےر زادہ سےّد محمد حسن کی زبان سے سنے ہوئے ہےں ۔
آٹھ بج کر دس منٹ پر نواب زادہ حمےد اللہ خاں ، سرکار عالےہ معہ شہزادی عابدہ سلطان رونق افروز ہوئےں، تےن کرسےوں مےں سے درمےان کی کرسی خالی چھوڑ ی گئی ، جس پر نئے حکمراں کو گدّی نشےں ہونا تھا، سےدھی طرف کی کرسی پر سرکار عالےہ ، بائےں طرف نواب زادہ حمےد اللہ خاں اور چوتھی کرسی پر جو ذرا نےچے تھی شہزادی عابدہ سلطان بےٹھی تھےں۔
اس کے بعد قاضی علی حےدر عباس صاحب نے دربار کی اجازت طلب کی ، پھر جو منظر پےش ہوا، وہ تارےخ بھوپال ہی کا نہےں بلکہ تارےخ ِ اسلام کا اےک عجےب و غرےب واقعہ تھا۔
قرآن پاک سورہ ”ےوسف “ کے گےارہوےں رکوع اور ”والضحّیٰ“ کی تلاوت سے دربار کا آغاز ہوا، سورہ¿ ےوسف اس لئے کہ حضرت ےوسفؑ تمام عمر زندگی سے جوجھتے رہے اورپھرمصر کی سلطنت کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے تھے، اور خدا کا شکر ادا کےا تھا۔ سورہ¿ والضحیٰ اس لئے کہ نبی کرےم ےتےم پےدا ہوئے تھے ۔ اللہ نے اس سورہ¿ مےں آپ کو مخاطب کےا ہے کہ اس مےں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام کے ساتھ اچھے برتاﺅ کی نصےحت اورا پنی نعمت کے شکر کی ہداےت فرمائی ۔
نواب زادہ حمےد اللہ خاں بھی ےوسفؑ کی طرح جو جھتے ہوئے تخت نشےں ہورہے تھے، وہ بھی چھ سال کی عمر مےں ےتےم ہوگئے تھے، تلاوت کلام پاک کے بعد سرکار عالےہ نے اےک ےادگار تقرےر فرمائی، جس مےں اپنے دورِ حکومت کے حالات اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ بےان کئے، ساتھ ہی رےاست کے ملازمان اور عوام الناس (رعاےا) کا بھی شکرےہ ادا کےا۔
اُس ماحول مےں حاضرےن دربار کو مخاطب کرکے سرکار عالےہ نے فرماےا ”اب حکومت ، اعلیٰ حضرت سکندر رصولت افتخار املک نواب محمد حمےد اللہ خاں بہادر والی¿ رےاست بھوپال کے بازﺅں پر ڈالتی ہوں“۔ حاضرےن دربار سے فرماےا کہ سو سال تک بھوپال کی قسمت نازک ہاتھوں مےں رہنے کے بعد اب اےک مضبوط طاقتور مرد کے سپرد ہورہی ہے ۔نواب حمےد اللہ خاں سے فرماےا : آپ اس آےت کو ہمےشہ اپنے پےش نظر رکھےں ، انا اللہ ےعمربالعدل و الا حسان “ (بے شک اللہ حکم کرتا ہے ’انصاف کر اور احسان ‘)
(سلسلہ جاری ،صفحہ پانچ )