عظیم سائنسداں، دیش رتن، بھارت رتن ،بھارت کے سابق صدر جمہوریہ ’’میزائل مین آف انڈیا‘‘ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام آج ہی کے دن ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۳۱ء؁ کو پیدا ہوئے۔آپ نے کئی ایجادات کیں۔ ملک کے سائنسدان آج بھی ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی زندگی اور کارناموںکو عوام تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔نیز ان کی سائنسی فکر اور سوچ کو عوام تک پہنچارہے ہیں۔ڈاکٹراے پی جے عبدالکلام کا پورا نام ابوالفخرزین العابدین عبدالکلام تھا۔ آپ نے 1954 میں سینٹ جوزف کالج، تروچیراپلی سے گریجویشن اور 1960 میں مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، چنئی سے ایرو اسپیس انجینئرنگ مکمل کی۔ڈی آر ڈی اُو (ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن) میں بطور سائنسدان کام کیا جہاں انہوں نے بھارتی فوج کے لیے ایک چھوٹا ہیلی کاپٹر بھی ڈیزائن کیا۔ 1969 میں انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن میں بھارت کے پہلے دیسی سیٹلائٹ میزائل (SLV-III) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ بھارت میں بیلسٹک میزائلوں کی ترقی میں ان کی عظیم شراکت کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے’’میزائل مین آف انڈیا‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ انہوں نے 1998 کے کامیاب پوکھرن 2 ایٹمی تجربے میں بھی اہم کردار ادا کیاتھا۔
ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بھارت کے تیسرے صدر تھے جنہیں ملک کے عظیم ایوارڈ ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر کلام نے بہت سی کتابیں بھی لکھیں جیسے ونگز آف فائر، اگنیٹڈ مائنڈز، ٹارگٹس 3 بلین ، ٹرننگ پوائنٹس، انڈیا 2020، میرا سفر وغیرہ۔ان تمام کتابوں کا مطالعہ ہم سب کے لئے اورخاص کر بچوں اور آنے والی نسلوں کے لئے بہت ضروری ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کا پیغام اور مشن بھارت کے کونے کونے اور تمام باشندوں تک پہنچایا جائے اور اس کے لئے تمام صوبائی اور قومی سرکاروں (National & State Govt.) کی ذمہ داری ہے کہ ایسے تمام اضلاع جہاں تعلیمی اور اقتصادی طور پر لوگ پسماندہ ہیں ان کے لئے Skill development College اور Employment oriental courses کھولے جائیں ۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی تمام کتابیں بھارت کی تمام لائبریری میں رکھی جائیں اور بچوں کو پڑھنے پڑھانے کی ترغیب دی جائے۔ بھارت کے تمام ایسے اضلاع جو ہر لحاظ سے پچھڑے ہوئے ہیںوہاں داکٹر کلام کے نام سے اسکیم شروع کی جائے، لائبریری ، اسکول اور کالجز کھولے جائیں۔یہی سب کام کرکے آنے والی نسلوں کو سرخ رو کیا جاسکتا ہے جس کی آج سخت ضرورت ہے۔
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام میزائل مین اور صدر جمہوریہ کی حیثیت سے بھارتی تاریخ کا ایک چمکتا ہوا ستارہ ہیں۔اُن کی زندگی بہت جدوجہد بھری رہی جو نئی نسل کے لیے ایک تحریک بھی ہے۔ انہوں نے بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ جو انہوںنے پورا کر دکھایا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ داکٹر کلام کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا ۔اس کے باوجود انہوں نے اپنی پڑھائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔غربت کے باوجود وہ اس مقام تک پہنچے کہ ایک عظیم سائنسداں بنے اور پھر ملک کے صدر جمہوریہ کے عہدہ پر انہیں فائز کیا گیا۔ان کی زندگی نوجوانوں طلباء و طالبات کے لئے عبرت کا مقام ہے کہ تمام تر سہولیات میسر ہونے کے باوجود آج کا نوجوان پڑھنے لکھنے کا شوق نہیں رکھتا۔ہر طرح سے آسانیاں ہونے کے باوجود محنت نہیں کرنا چاہتے۔ داکٹر کلام کی زندگی سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ حالات کیسے بھی ہو اگر انسان کسی کام کے کرنے کا عزم کرلیتا ہے تو یقینا راستے اس کے لئے خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔
آج ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے یوم پیدائش پر ہم سب کو عزم کرنا چاہئے کہ تعلیم کے حصول کے لئے ہمیں کتنی ہی مشقتیں برداشت کرنا پڑیں ،کتنی ہی مشکلات ہمارے سامنے آئیں ۔اسباب ہو یا نہ ہو ہمیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنا ہی ہے اور اپنے والدین ، خاندان، معاشرے ، قوم اور اپنے ملک کا نام روشن کرنا ہے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے پیغام اور مشن کو آگے بڑھا کر ہی اپنے ملک کو ہم اَندھ وِشواس (توہم پرستی) کے پاکھنڈ سے بچا سکتے ہیں اور ملک کو وِشو گرو بنا سکتے ہیں۔