نئی دہلی15فروری: دہلی ہائی کورٹ نے طلاق کے معاملے میں ایک اہم فیصلہ دیا ہے۔ عدالت نے ایک شخص کو اس کی بیوی کے اپنے والدین کے زیر اثر رہنے یا اپنے والدین کو چھوڑ کر شوہر کے ساتھ نہ رہنے کو شوہر پر ظلم قرار دیتے ہوئے طلاق کی منظوری دے دی ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اب ان تمام معاملات میں ایک نظیر بن سکتا ہے جن میں بیویاں اپنے والدین کے ساتھ رہنے کی ضد کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ میں جسٹس سریش کمار کیت کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ خاتون کے میکے کے لوگ اس کی ازدواجی زندگی میں ’غیر ضروری مداخلت‘ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے شوہر کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے حکم کے خلاف شوہر کی اپیل پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’دونوں فریق تقریباً 13 سال سے الگ رہ رہے ہیں، اس دوران شوہر کو اس کے ازدواجی رشتے سے محروم کر دیا گیا جو ایک طرح سے ظالمانہ و اذیت ناک اقدام ہے۔ اس سے قبل فیملی کورٹ نے شوہر کی طلاق کی درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اپیل کنندہ (شوہر) نے کامیابی سے ثابت کیا ہے کہ مدعا علیہ (بیوی) نے اسے ظلم کا نشانہ بنایا اور وہ طلاق کی حقدار ہے۔‘‘ عدالت نے کہا کہ ’’بیوی کا طرز عمل درخواست گزار کے اس بیان کی واضح طور پر تصدیق کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے زیر اثر تھی اور ان سے علاحدہ ہونے اور درخواست گزار کے ساتھ تعلق رکھنے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‘‘
ہائی کورٹ نے مزید کہا ہے کہ ’’واضح طور پر شادی اور اس کے ساتھ دیگر ذمہ داریوں کو مسترد کر دیا گیا۔ مدعا علیہ کے اس طرز عمل کو درخواست گزار کے ساتھ ذہنی ظلم ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس رشتے کو جاری رکھنے کی کوئی بھی کوشش دونوں پر مزید ظلم کا باعث بنے گی۔ اس معاملے میں شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں میں صلح کا کوئی امکان نہیں۔‘‘