بھوپال،2فروری: اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو معجزات سے نوازاجو اس بات کی تصدیق کرنے کیلئے کافی تھے کہ یہ شخص کو ئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ساری قوتیں شامل ہیں۔ اس کے ہاتھ سے ان نا ممکن چیزوں کا صدور ہوسکتا ہے جس کے بارے میں دوسرے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو بھی مختلف معجزات عطا فرمائے جن میں سے آپ کا زندہ و تابندہ معجزہ ’’قرآنِ مجید‘‘ ہے لیکن قرآنِ مجید کے بعد آپ کو ایک ایسا منفرد معجزہ عطا فرمایا گیا جس کی نظیر تاریخِ انسانی میں کہیں نہیں ملتی۔ اور یہ معجزہ ’’معراج‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔مذکورہ باتیں قاضی شہر حضرت مولانا سید مشتاق علی ندوی نے آج نماز جمعہ سے قبل موتی مسجد میں نمازیوں سے اپنے علمی خطاب میں کہیں۔قاضی شہر نے اپنی گفتگو کا موضوع واقعہ معراج کو بناتے ہوئے فرمایا کہ معراج النبی کا واقعہ انسانی عظمت اور سربلندی کا نقطہ عروج ہے۔یہ واقعہ نبی اکرم کی سیرت کا وہ منفرد ترین واقعہ ہے جسے عقل سے نہیں ایمان اور عشق کی طاقت سے سمجھا جا سکتا ہے۔اس لئے کہ عقل کی پرواز ہمیشہ سے محدود رہی ہے۔انسان نے جب بھی معجزات کو محض عقل سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی ہے اسراء و معراج کے پورے واقعے پرمادیت ’’ عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی ‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہے لیکن ایمان و عشق اسے ہمیشہ سے سچ ہی سمجھتے آئے ہیں اورتا قیامت اس کی صداقت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ معراج کا واقعہ یہ سبق دیتا ہے کہ آسمان کی بلندیاں اور وسعتیں حضرتِ انسان کی دسترس میں ہیں۔یہ واقعہ مستقبل کے با رے میں اللہ تعالیٰ کے منصوبوں اور اسلام کی ترویج و اشاعت کا غماز بھی ہے۔ روایات کے مطابق معراج کا واقعہ مکی زندگی کے بالکل اواخر میں پیش آیا۔یہ وہ مرحلہ تھا جب مکہ ظلم کی ایک ایسی وادی بن چکا تھا جہاں پر مسلمانوں کیلئے مزید رہنا انتہائی دشوار ہو رہا تھا۔ نبی اکرم کے دو مادی سہارے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ یکے بعد دیگرے انتقال فرما چکے تھے۔ پھر کیا تھا جیسے کفارِ مکہ نے یہ طے کر لیا ہو کہ وہ نبی اکرم اور اہلِ ایمان کو ایسی پرتشدد زندگی سے گزاریں گے کہ ان کی طاقت ختم اور ان کی برپا کردہ اسلامی تحریک بے جان ہو جا ئے گی۔ایسی صورت حال میں واقعہ معراج پیش آیا جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اے محمد گھبرانے کی کو ئی ضرورت نہیں۔ اگر وقتی طور پر فرش والے آپ کے ساتھ نہیں ہیں تو کوئی با ت نہیں ہے، عرش والا تو ہر حال میں آپ کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کفارِ مکہ اور سردارانِ طائف کو یہ بتانا چا ہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت، حضرت محمد اور ان کی برپا کردہ تحریک کے ساتھ ہے۔ وہ اللہ جو انہیں ایک رات میں مکۃ المکرمہ سے بیت المقدس اوربیت المقدس سے ملاء اعلیٰ تک لے جاسکتا ہے اس کی طاقت کے سامنے تمہاری طاقت ایک رائی کے دانے کے برابربھی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ جلد ہی تمہاری طاقت کا طلسم توڑ کر اپنے پیارے نبی کو سرخرو اور فاتح کر دے گا۔ اس واقعے کے اندر حضرت محمد کیلئے بھی بہت زیادہ تسلی و تشفی کا سامان تھا۔ اس واقعے سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ جس اللہ نے آپ کوکائنات کیلئے ہادی و رہنما بنا کر مبعوث فرمایا ہے اس کی مدد قدم قدم پر آپ کے ساتھ ہے وہ مشکل لمحات میں آپ کو اپنے ہاں شرفِ باریابی عطا فرما کر ساری کائنات کو آپ کی عظمت سے آگاہی دے رہا ہے اور یہ بتا رہا ہے کہ جہاں پر آپ کے قدمِ مبارک پہنچے ہیں وہاں پر نہ تو کوئی نبی پہنچا ہے اور نہ ہی کو ئی نورانی فرشتہ اور نہ ہی کوئی جن و انس وہاں تک جانے کی سکت رکھتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیات کی شان ہی نرالی ہے کہ وہ بغیر کسی واسطے کے براہِ راست عطا ہوئیں جیسے محب اپنے محبوب سے ملاقات کے وقت اسے کوئی نرالا تحفہ پیش کرتا ہے۔ سبحان اللہ اس کی عظمت کا کیا کہنا ! اور جہاں تک پانچ نمازوں کا تعلق ہے کہنے کو تو وہ پانچ ہی رہ گئی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ جو بھی انہیں خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے گا اسے ثواب پچاس ہی کا دوں گا۔
(باقی صفحہ 7 پر)