نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کے روز مختلف ریاستی حکومتوں میں نائب وزرائے اعلیٰ کی تقرری کو چیلنج کرنے والی مفادِ عامہ کی ایک عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’نائب وزیر اعلی ریاستی حکومت میں سب سے پہلا اور سب سے اہم وزیر ہوتا ہے۔ اس عہدے کا آئینی نقطۂ نظر سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے، لیکن وہ کابینہ کے کسی وزیر کی طرح ہی ہیں۔‘‘ چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ کا کہنا ہے کہ ’’یہ صرف ایک لیبل ہے۔ اگر آپ کسی کو نائب وزیر اعلیٰ کہتے ہیں تو اس کی آئینی حیثیت صرف وزیر کی ہی ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے کسی خاص شخص کی وابستگی کا آئینی لحاظ سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے۔ وہ زیادہ تنخواہیں نہیں لیتے، وہ کابینہ کے کسی دیگر وزیر کی ہی طرح ہیں۔‘‘
اس بنچ میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی شامل تھے۔ بنچ نے کہا کہ ’’ہندوستان کی آئین کے تحت ایسی نامزدگیوں کے لیے کوئی انتظام کیے بغیر ریاستی حکومتوں میں نائب وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کو چیلنج کرنے والی درخواست میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور اسے خارج کر دیا جانا چاہئے۔‘‘ ایڈوکیٹ موہن لال شرما کے ذریعہ دائر کی گئی اس مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) میں کہا گیا کہ ’’آئین کی دفعہ 164 صرف وزرائے اعلیٰ کی تقرری کا انتظام کرتی ہے اور نائب وزیر اعلیٰ کی تقرری کا ریاستوں کے شہریوں یا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ پی آئی ایل میں مزید کہا گیا کہ ’’نائب وزرائے اعلیٰ کی تقرری سے عوام میں بڑے پیمانے پر کنفیوژن پیدا ہوتی ہے اور سیاسی پارٹیاں فرضی محکمے بنا کر غلط اور غیر قانونی مثالیں قائم کر رہی ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں لے سکتے لیکن انہیں وزیر اعلیٰ کے برابر دکھایا جاتا ہے۔‘‘