نئی دہلی 9فروری:ملک کے کئی صوبوں میں نائب وزیر اعلیٰ کی تقرری کے رواج پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں۔ دراصل مختلف صوبوں میں مقرر کیے گئے نائب وزرائے اعلیٰ کی تقرریوں کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی داخل کی گئی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ بنے اس عرضی پر 12 فروری کو سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ ریاستی حکومتوں نے ہندوستانی آئین اور آرٹیکل 164 کی شقوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مختلف ریاستوں میں نائب وزرائے اعلیٰ کی تقرری کی ہے۔ حالانکہ ہندوستانی آئین اور آئین کے آرٹیکل 164 میں صرف وزیر اعلیٰ کی تقرری کا ہی تذکرہ ہے۔ ایڈووکیٹ موہن لال شرما کے ذریعہ داخل کی گئی اس عرضی میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ اگر مبینہ طور پر نائب وزرائے اعلیٰ کی تقرری کی جاتی ہے، تو اس کا شہریوں اور ریاستی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اس عرضی میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے گورنر سے کہیں کہ وہ ملک میں مبینہ نائب وزرائے اعلیٰ کو حلف دلانے والی ایسی غیر آئینی تقرریوں کے خلاف اقدامات کریں۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نائب وزرائے اعلیٰ کی تقرری سے بڑے پیمانے پر عوام میں گمراہی پیدا ہوتی ہے اور سیاسی پارٹیاں خیالی محکمے بنا کر غلط اور غیر قانونی مثالیں قائم کر رہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نائب وزرائے اعلیٰ کسی بھی طرح کا آزادانہ فیصلہ نہیں کر سکتا ہے۔ تاہم، نائب وزرائے اعلیٰ کو وزیر اعلیٰ کے برابر ہی پیش کیا جاتا ہے۔