مونگیر:31؍دسمبر:(پریس ریلیز)یومِ نئے سال کی حیثیت اور اس دن کو بطور یادگار منانے کی حقیقت پر اسلامی تعلیمات بہت واضح ہیں۔ اسلام میں کسی بھی تاریخی، مذہبی یا قومی واقعہ کو ایک خاص دن کے طور پر منانے کی کوئی جائزیت نہیں رکھی گئی، کیونکہ دینِ اسلام میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا گیا کہ کسی خاص دن کو کسی نعمت یا انعام کی یادگار کے طور پر منایا جائے۔ حضرت امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس موضوع پر ایک بہت اہم اور بصیرت افروز بات کی تھی۔ آپ نے یہودیوں سے کہا تھا: “اگر کسی دن کو بطور یادگار منانے کا کوئی جواز یا اس میں کوئی عظمت ہوتی، تو ہم اس دن کو بطور یادگار مناتے جس دن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سب سے بڑا انعام دیا، یعنی دین کا تکمیل اور نعمت کا اتمام۔” اس سے واضح ہوتا ہے کہ دینِ اسلام میں کسی دن کو اس طرح سے یادگار بنانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ المائدہ کی آیت 3 میں فرمایا:
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی، اور اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا۔یہ آیت ایک عظیم اور جامع اعلان ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دین کی تکمیل کا اعلان کیا ہے، اور اس دن کو ایک ایسا دن قرار دیا ہے جس پر مسلمان دنیا بھر میں خوشی مناتے، لیکن اسلام میں اس دن کو کسی خاص طریقے سے منانے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جب دین کی تکمیل جیسے عظیم انعام پر کسی خاص دن کی یادگار منانے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا، تو پھر دوسرے کسی دن کو کسی مخصوص واقعے یا انعام کی یادگار کے طور پر منانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دینِ اسلام میں کسی بھی دن کو بطور عید یا جشن منانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اللہ کا انعام خواہ دینی ہو یا دنیوی، قومی ہو یا انفرادی، اسے ہمیشہ فضلِ خداوندی سمجھنا چاہیے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر ہمیں کسی دن اللہ کی کوئی بڑی نعمت یا انعام حاصل ہو، تو اس کا شکر کسی اجتماع یا پارٹی کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے اعمال میں اخلاص، دعا، اور توبہ کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ یہ طریقہ اللہ کی رضا کے زیادہ قریب ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر دن کا آغاز اور اختتام اللہ کی عبادت میں ہو، اور اس کے علاوہ ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں نیک عملوں کو اپنانا چاہیے۔ ہر نیا سال، ہر نیا دن، ہر نیا لمحہ ہمیں اپنی سابقہ زندگی کا جائزہ لینے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کو بہتر بنانے، گناہوں سے توبہ کرنے اور نیکیاں بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔نئے سال کے آغاز پر ہمیں اپنے دلوں میں اللہ کی رضا کی جستجو ہونی چاہیے اور اپنے پچھلے اعمال کا محاسبہ کر کے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اجتماع کی کوئی ضرورت نہیں، نہ ہی کسی قسم کی محفل یا جشن منانے کی، کیونکہ یہ سب غیروں کے طریقے ہیں، اور ان سے بچنا ضروری ہے۔ ہماری اصل محفل اور خوشی اس بات میں ہونی چاہیے کہ ہم نے اللہ کی رضا کی طرف قدم بڑھایا ہے اور اپنے اعمال میں مزید بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔
لہذا، یومِ نئے سال کو ایک نیا موقع سمجھ کر اللہ کا شکر ادا کریں اور اپنے روحانی سفر کی طرف نئے عزم کے ساتھ قدم بڑھائیں۔
محمد شاہد رحمانی :شعبہ صحافت جامعہ رحمانی مونگیر ۔