امپھال13 فروری: منی پور میں جاری نسلی تشدد، سیاسی عدم استحکام اور نظم و نسق کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حالیہ سماعت میں منی پور میں آئینی مشینری کی مکمل ناکامی پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک سنگین بحران قرار دیا تھا، جس کے بعد مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ لیا۔ منی پور میں مئی 2023 سے میتئی اور کوکی برادریوں کے درمیان شدید فسادات جاری ہیں، جن میں اب تک 300 سے زائد افراد ہلاک اور 60000 سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ وہ حالات پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتیں مسلسل وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی برطرفی کا مطالبہ کر رہی تھیں، جنہوں نے چند روز قبل گورنر اے بھلا کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا تھا۔ کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے صدر راج کے نفاذ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’کانگریس گزشتہ 20 مہینوں سے اس کا (صدر راج) مطالبہ کر رہی تھی۔ صدر راج اس وقت نافذ کیا گیا جب ریاست میں آئینی مشینری مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ بی جے پی نے منی پور کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا اور وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست کی سنگین صورتحال کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا۔‘‘ بیرین سنگھ نے ایسے وقت میں استعفیٰ دیا جب ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک آڈیو کلپ کی فارنزک جانچ کا معاملہ زیر سماعت ہے۔ مبینہ طور پر اس کلپ میں وہ میتئی گروپوں کو سرکاری اسلحہ اور گولہ بارود لوٹنے کی اجازت دینے کی بات کرتے سنے گئے تھے۔ اس انکشاف کے بعد سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر گیا تھا۔ کانگریس نے دعویٰ کیا ہے کہ بیرین سنگھ کا استعفیٰ عوامی مفاد میں نہیں بلکہ بی جے پی کو بچانے کے لیے دیا گیا، تاکہ وہ اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک اور فلور ٹیسٹ کا سامنا نہ کر سکیں۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے کہا کہ ’’یہ حکومت عوام کے دباؤ، سپریم کورٹ کی کارروائی اور اپوزیشن کے عدم اعتماد کے اقدام کے سبب جوابدہ ہونے پر مجبور ہوئی۔‘‘