بھوپال:5؍دسمبر:بھارت کے دو عظیم رہنما بابا صاحب ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر اورمولانا علی حسین عاصم بہاریؒ جنہوں نے اپنی ساری زندگی غریبوں، مظلوموںکو انصاف دلانے،ذات پات،اُونچ نیچ اور آپسی بھیدبھائوکو ختم کرنے کے لیے وقف کردی۔یہ دونوں رہنماتقریباًہم عصر ہیں اور ان کی حیات وخدمات کی بات کریںتو دونوں رہنمائوں میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔دونوں کی زندگی پیدائش سے لے کر وفات تک یکساں رہی۔یہ الگ بات ہے کہ آج بابا صاحب کے پیروکار بے شمار ہیں اور ان کے بتائے ہوئے راستہ پر چل رہے ہیں، جبکہ بابائے قوم علی حسین عاصم بہاری صاحبؒ کے پیروکارتو ہیں لیکن ان کے بتائے ہوئے راستہ سے بھٹک گئے ہیں۔جوآج ان کا نام تک نہیںلیتے ہے۔ جبکہ آج ڈھیر ساری تنظیمیںجیسے مومن، کانفرنس ،انصار سبھا،انصاری پنچایت وغیرہ وغیرہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو صرف اپنی سیاسی روٹی سینکنے میں لگی ہیں۔آج تک کسی نے بابا قوم علی حسین عاصم بہاریؒ کی یوم پیدائش ،یوم وفات پر نہ تو یاد کیا اور نہ ہی کوئی پروگرام منعقد کیا اور ایک ایسی شخصیت کو دن بدن گمنامی کی زندگی میں ڈھکیلنے میں لگے ہیں۔ اور ایسی قوم کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گا۔
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر ایک ممتاز مفکر ،مصلح ،قانون داں،دستورہند کے مؤلف اور بھارت کے پہلے وزیرقانون اور علم کے حامل تھے۔باباصاحب امبیڈکر ایسے دور میں پیدا ہوئے جب ظلم وزیادتی اور استحصال کا دور رائج تھا اور بھارت کا معاشرہ ذات پات کی تفریق اور چھوا چھوت پر مبنی تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا تعلق اس برادری سے تھا جو انسانی حقوق سے محروم تھی۔ جب اسکول میں داخلہ لیا تو دیگر ذات کے بچوں کے ساتھ انہیں بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔
وہیںمجاہد آزادی مولانا عاصم بہاری ؒ کا تعلق مسلم خاندان سے تھا، جو کافی غریب تھے۔وہ ایک مصلح ومفکر قوم ،دانشور سماجی وسیاسی اور انسان دوست شخصیت تھے۔انہوںنے عوام کیلئے جو خدمات انجام دیں اس کی مسلم معاشرے میںکوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کی کوششوں کی بدولت عوام میں بیدار ی پیدا ہوئی اور سماجی وسیاسی شعور بیدار ہوا۔مولانا عاصم بہاریؒ ایسے دور میں پیدا ہوئے جب غریب، محنت کش طبقات ،سماجی،تعلیمی اور معاشی بد حالی کے شکارتھے۔ غیروں کی طرزپر مسلم معاشرہ میں بھی ذات پات اور اُونچ نیچ کا دور دورہ تھا جو آج بھی ہے۔ مسلمانوں کے درمیان ناانصافی واستحصال کی بری روایت عام تھی۔جس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر اور مولانا عاصم بہاریؒدونوں رہنمائوں نے تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سماج کے اندر پھیلی ذات پات ، چھواچھوت اور ناانصافی واستحصال کی اس گندی روایت کو اگر ختم کرنا ہے تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہوگا۔