مولانا علی حسین عاصم ؒبہاری بہار میں ایک غریب پسماندہ بُنکر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں انہوں نے کلکتہ میں اُوشا تنظیم میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ملازمت کے دوران انہوں نے مطالعہ اور پڑھنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ وہ کئی طرح کی تحریکوں میں سرگرم رہے۔حکومتی پابندیوں کے باعث انہوں نے نوکری چھوڑ کر روزی روٹی کے لیے بیڑی بنانا شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے بیڑی ورکر ساتھیوں کی ایک ٹیم تیار کی جو قوم اور سماج سے جڑے مسائل پر گفتگو کرے۔مولانا عاصم بہاریؒ نے شروع ہی سے غریبوں اور پسماندہ ذاتوں کو متحرک، فعال اور منظم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے وہ ہر کانفرنس میں دیگر پسماندہ ذاتوں کے لوگوں، رہنماؤں اور تنظیموں کو شامل کیا کرتے تھے، ان کی شراکت کو مومن گزٹ میں بھی برابر کا مقام دیا جاتا تھا۔آپ تقسیم کے سخت خلاف تھے۔
مولانا نے بھارت چھوڑو تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ 1940 میں انہوں نے ملک کی تقسیم کے خلاف دہلی میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں تقریباً چالیس ہزار پسماندہ لوگوں نے شرکت کی۔ مسلمان تقسیم کے خلاف تھے جن میں سر فہرست مولانا علی حسین عاصم بہاریؒ تھے۔آپ نے آل انڈیا مومن کانفرنس کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی۔انہوں نے تعلیم حاصل کرنے پرزور دیا ،ان کا کہنا تھا کہ بھلے پیٹ میں دانہ نہ ہو،پیر میں جوتا نہ ہو لیکن جیب میں قلم اور ہاتھ میں کاغذ ہونا بہت ضروری ہے۔بھوکے رہو لیکن تعلیم ضرور حاصل کرو۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر سماج کے اندر پھیلی ہوئی ذات پات، چھوا چھوت اور ناانصافی کی اس گندی روایت کو ختم کرنا ہے تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔ اگر ہم معاشرے کے اندر پھیلی ہوئی ہر قسم کی برائیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم یافتہ بننا ہوگا۔مسلمانوں کے بیچ جو ذات پات ہے جس کو اسلام میں سختی سے منع کیا گیا ہے اس کو ختم کرنے کے لئے بھی انہوںنے محنت کی، ان کا کہنا تھا کہ اس روایت کو ختم کرنے کے لئے مسلمان آپس میں رشتہ کیوں نہیں کرتے؟ الغرض انہوںنے اپنی پوری زندگی غریبوں،تعلیم اور معاشی طور پر نظرانداز اور کمزور دلت برادریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوششوں میں گزاری۔ان کی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ سماج کے سب سے نچلے طبقے کو سماجی اور تعلیمی طور پر کس طرح اُٹھایا جائے اور ان کے جائز حقوق کس طرح دلائے جاسکیں۔انہوںنے اپنی پوری زندگی دلت مسلم، پسماندہ مسلم کو اوپر اٹھانے کے لئے وقف کر دی۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ اتنے عظیم رہنما اور مجاہد آزادی ،بابائے قوم علی حسین عاصم بہاریؒ صاحب کی آج کوئی خبر لینے والا نہیں ہے جو کہ گمنامی میں چلے گئے ہیں۔ اسی طرح تمام پسماندہ رہنمائوں چاہے وہ عبدالقیوم انصاری ہوں،شیخ بھکاری ہوں، بطخ میاں انصاری ہوں اور ان جیسے ہزاروں کی تعداد میں پسماندہ رہنما ہیں جن کو کوئی یاد کرنے والا نہیں ہے اور نہ پسماندہ رہنمائوں کے ذریعہ آنے والی نسلوں کو متعارف کرایا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے جس سوچ کو لے کر یہ عظیم شخصیات آگے بڑھی تھیں ہمیں اسی سوچ اور خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے آج اس دور میں بھی ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی قوم کو تعلیم یافتہ،متحد کرنا ہے اور اپنے جائز حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔مولانا علی حسین عاصم بہاری ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے ہم عصر بھی ہیں اور مسلمانوں کے امبیڈکر کہلاتے بھی ہیں آج ان کے یوم وفات پر ہمیں آئین کو بچانے کا حلف لینا ہوگا۔آج اس موقع پر ملک کے گوشے گوشے سے یہ آواز بھی اُٹھ رہی ہے کہ اگر باب صاحب کے سنودھان (آئین ) کو بچانا ہے تو ای وی ایم کو ہٹانا ہوگا۔ بھارت جمہوری ہے جمہوری ہی رہے اس کے لئے 1950کے صدارتی حکم جس سے ایک مخصوص طبقہ محروم کر دیا گیا ہے اسے ہٹانا ہوگا۔ دفعہ 341(1)کو ہٹانا ہوگا۔ آئین کے پریامبل کی حفاظت کرنا ہوگی۔ذاتی مردم شماری (جاتی گت جن گڑنا) ہر جگہ ہر صوبے میں ہو اس کا انتظام کرنا ہوگا۔ غرض یہ کہ منوواد اور پونج واد کو ختم کرنا ہوگا یہی مشن تھا بابائے قوم علی حسین عاصم بہاریؒ کا اور ان جیسے تمام رہنمائوں کا۔نیز سب سے اہم بات جو بابائے قوم نے کہی کہ ’’بھلے پیٹ میں دانا نہ ہو، پیر میں جوتا نہ ہو لیکن جیب میں قلم اور ہاتھ میں کاغذ ہونا بہت ضروری ہے ‘‘ اس بات کو عملی جامہ پہنانا ہوگاتبھی ملک ترقی کرے گااور ہر طرف امن و چین کی ہوائیں چلیں گی۔اگر آج ہم سب اس مشن کو لے کر چلیں گے تبھی صحیح معنوں میں علی حسین عاصم بہاری اور بابا صاحب امبیڈکر کو سچی خراج عقیدت ہوگی۔