نئی دہلی22اگست: ’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ کو غیر دستوری، غیر جمہوری، غیر منصفانہ اور شریعت مخالف قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ یہ بل اوقاف کے مفاد کے خلاف ہے، اس لیے ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، اور حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ اس پورے بل کو واپس لیا جائے۔ بصورت دیگر ملک گیر سطح پر اس کے خلاف مہم چلائی جائے گی۔ آج یہاں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، جمعیت اہل حدیث نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وقف ایکٹ 1995 میں تبدیلیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس سے وقف کو نقصان پہنچے گا اور وقف جس کمیٹی کی املاک ہے اس سے یہ جائیداد چھین لی جائے گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ وقف کے سلسلے میں ایک اصل ہے کہ اس کو استعمال کی بنا پر ’وقف بائی یوزر‘ مانا جائے گا جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو مذہبی مقامات بھی شامل ہیں۔ لیکن نئے بل میں وقف بائی یوز کے حوالے سے بھی دستاویز مانگے گئے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ ایسی صورت میں انہوں نے سوال کیا کہ آج اگر کوئی دہلی کی شاہی جامع مسجد کے دستاویز مانگے تو کیا یہ درست ہوگا؟ مولانا خالد سیف اللہ نے کہا کہ اگر وقف بائی یوزر کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو تمام چیزیں خطرے میں پڑ جائیں گی اور مسلمانوں سے تمام اوقاف چھین لئے جائیں گے۔ انھوں نے مسلمانوں، ہندوؤں، عیسائیوں کے مذہبی مقامات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نئے بل کے مطابق وقف کونسل میں 13 غیر مسلم اراکین ہوں گے اور وقف بورڈ میں 7 غیرمسلم ارکان ہوں گے۔ اس کے علاوہ وقف کا مکمل اختیار کلیکٹر کو دے دیا گیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ شرعی معاملات میں غیر مسلم فیصلہ کرے یا غیر مسلم معاملات میں عالم دین فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعہ وقف میں مرکزی حکومت کی مداخلت کا راستہ کھولا گیا ہے جسے ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے واضح لفظوں میں کہا کہ یہ اوقاف خیرات کا جذبہ رکھنے والے مسلمانوں کی دی ہوئی زمینیں ہیں، حکومت کی نہیں ہیں۔ حکومت کا کا م اوقاف کی حفاظت کرنا ہے، اس پرقبضہ کرنا نہیں ہے۔