بھوپال:02؍اپریل:
ایم پی نگر زون ون میںواقع مسجد ربانی (پریس کمپلیکس )میں موجود ہے۔یہاں زیادہ تر میڈیا اہلکار، ،تجارتی لوگ، قریب واقع سرکاری دفاترکے ملازمین، طلباء اور مسجد کے قرب وجوارمیں رہائشی علاقوں میں رہنے والے اورپریس کامپلیکس میںکام کرنے والوں کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے۔ دن کے پانچوں وقت کی نمازوں کے مقابلے میں اس مسجد میں نمازِ ظہر اور جمعہ کی نماز کے لیے بڑی تعداد میں نمازاداکرنے آتے ہیں۔
خواتین کے لیے خصوصی انتظامات:
مسجد ربانی میں خواتین کے لیے باجماعت نماز پڑھنے کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ مسجد ربانی کی انتظامی کمیٹی سے وابستہ ظفر عالم خان کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے الگ انتظامات ہیں۔ خواتین کے لیے وضو اور آرام کا بھی الگ انتظام ہے۔وہیں نماز کے لئے علیحدہ سے جگہ مقرر ہے۔ ان کے لیے یہاں چینجنگ روم، بیڈ اور حمام بھی تیار کیے گئے ہیں۔ ظفر عالم کا کہنا ہے کہ مسجد میں دیگر نمازیوں سے الگ خواتین کے آنے جانے کےلئے انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس انتظام سے علاقے میں آنے والی محنت کش خواتین، طالبات اور کام کرنے والی لڑکیوں کو کافی راحت ملی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شروع میں خواتین کی آمد کم تھی لیکن رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب صورتحال ایسی ہے کہ یہاں خواتین نمازیوں کی بہت سی صفیں بننا شروع ہو گئی ہیں۔ یہاں دوپہر کے وقت ظہر کی نماز اور سہ پہر کو عصر کی نماز میں خواتین کی خصوصی موجودگی نظرآتی ہے۔
ظفر عالم خان کا کہنا ہے کہ مسجد ربانی میں نماز کے بعد جو فارغ وقت بچ جاتا ہے اس میں کمیونٹی سینٹر، لائبریری، میڈیکل کیمپ اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لیے خصوصی کلاسیز شروع کرنے کا منصوبہ ہے۔
پورے ماہ افطارکااہتمام:
شہر کی مساجد میں رمضان کے پورے مہینے افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن مسجد ربانی شہر کی واحد مسجد کہی جا سکتی ہے جہاں رمضان میں ہر روز روزہ افطارکاباقاعدہ اہتمام ہوتاہے۔ اس میں پریس کمپلیکس میں کام کرنے والے میڈیا اہلکار، تجارتی اداروں کے آپریٹرز اور ملازمین، آس پاس رہنے والے طلباء اور کام کرنے والے لوگ شرکت کرتے ہیں۔
ایشیا کی سب سے بڑی مسجد تاج المساجد میں چند سال قبل خواتین کی نماز کے لیے علیحدہ انتظامات کیے گئے ہیں۔ الگ الگ وضو اوراورطہارت خانے کاانتظام ہے۔
اس کے علاوہ شہر کی کئی دیگر مساجد میں ماضی میں نوابی دورحکومت میں خواتین کے لیے نماز پڑھنے کا انتظام تھا۔ اس میں موتی مسجد، کلثوم بیا مسجد، پیر گیٹ مسجد وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن بدلتے وقت کے ساتھ یہ انتظامات ختم ہو گئے۔جبکہ یہ انتظامات جامع مسجداورہیرامسجد(شمس المساجد) میں عرصۂ قدیم سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
شہر میں 500 سے زائد مساجد ہیں:
نوابی دور میں بھوپال شہر میں بڑی تعداد میں مساجد تعمیر کی گئیں۔ نوابی دور کے آغاز سے سردار دوست محمد خان سے لیکر نواب حمیداللہ خاں تک یہاں مساجد تعمیر کی گئیں۔ جن کی تعداد 500 سے زائد ہے۔ نوابی دور میں ان مساجد کی دیکھ بھال کے لیے ایک الگ محکمہ کام کرتا تھا۔ ان کے انتظام کا بندوبست بھوپال ریاست کے انضمام کے دوران ہوئے معاہدے میں بھی کیا گیا تھا۔ جس کے تحت اب مساجد کمیٹی یہ ذمہ داری ادا کررہی ہے۔