نئی دہلی 20جولائی:جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اتر پردیش حکومت کے ذریعہ کانوڑ یاترا کے راستہ پر مذہبی شناخت ظاہر کرنے والے حکم پر اپنا سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے اس عمل کو مذہب کی آڑ میں سیاست کا نیا کھیل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک تفریق آمیز اور فرقہ پرستی پر مبنی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے ملک مخالف عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا اور اس نئے حکم کے سبب فرقہ وارانہ خیر سگالی کو سنگین خسارہ پہنچنے کا اندیشہ ہے، جس سے آئین میں دیے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے کل (21 جولائی) اپنی قانونی ٹیم کی ایک میٹنگ بلائی ہے جس میں اس آئینی اور غیر قانونی حکم کے قانونی پہلوؤں پر بات چیت کی جائے گی۔ مولانا ارشد مدنی اس تعلق سے کہا کہ پہلے مظفر نگر انتظامیہ کی طرف سے اس طرح کا حکم جاری ہوا، لیکن اب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کا سرکاری حکم سامنے آ گیا ہے۔ اس میں صرف مظفر نگر اور اس کے آس پاس ہی نہیں بلکہ کانوڑ یاترا کے راستے میں جتنے بھی پھل اور سبزی فروش، ڈھابوں اور ہوٹلوں کے مالک ہیں، سب کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے نام کا کارڈ اپنی دکان، ڈھابہ یا ہوٹل پر چپکائیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اب تک ہمارے پاس ایسی خبریں پہنچی ہیں کہ بہت سے ڈھابوں اور ہوٹلوں کے منیجر یا مالکان جو مسلمان تھے، کانوڑ یاترا کے دوران انھیں کام پر آنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سرکاری حکم کے خلاف جانے کی ہمت کون کر سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک کے سبھی شہریوں کو آئین میں اس بات کی پوری آزادی دی گئی ہے کہ وہ جو چاہیں پہنیں، جو چاہیں کھائیں… یہ ان کی ذاتی پسند ہے اور اس میں کوئی رخنہ نہیں ڈالے گا، کیونکہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ آئین میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ ملک کے کسی شہری کے ساتھ اس کے مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جائے گی، اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔