8فروری سالگرہ پر خصوصٰٰٰٰٰٰٰٰیٰ پیشکش
ٰٰٰانڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد اظہر الدین کے کیریئر کا آغاز جس شاندار طریقے سے ہوا تھا ۔ اختتام اتنا ہی مایوس کن رہا، حالانکہ اپنے آخری ٹیسٹ میچ میں بھی اظہر الدین نے شاندار سنچری اسکور کی یہ اظہر کا 99واں ٹیسٹ تھا اور یہ انکی بد قسمتی رہی کہ وہ 100ٹیسٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے کلب میں شامل نہ ہوسکے۔ 8فروری 1963کو حیدر آباد میں محمد عزیز الدین اور یوسف سلطانہ کے گھر پیدا ہوئے محمداظہر الدین نے ابتدائی تعلیم آل سینٹس ہائی اسکول حیدرآباد سے حاصل کی اور نظام کالج عثمانیہ یونیورسٹی سے کامرس میں گریجوئیشن کیا۔
1980کی دہائی میں انڈین کرکٹ ٹیم میںایک ایسے کھلاڑی کا طلوع ہوا جس نے انڈین کرکٹ ٹیم کو سکھایا کہ جارحانہ کرکٹ کیسے کھیلی جاتی ہے۔ ان دنو ں زیادہ تر ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے کھلاڑی ہی عام طور پر اٹیکنگ کرکٹ کھیلتے تھے۔ انڈین ٹیم میں صرف کپل دیو، کرشنماچاری شریکانت اور سندیپ پاٹل کے علاوہ جارحانہ بلے بازی کرنے والا دور دور تک کوئی کھلاڑی نہ تھا۔ ایسے وقت میں ایک دبلے پتلے سے 22سالہ نوجوان محمد اظہر الدین نے بھارتیہ کرکٹ ٹیم میں دستک دی۔
جس کا انداز سب سے منفرد تھا، کھڑا ہوا کالر ، سفید ہیلمیٹ ، گلے سے لٹکتا ہوا تاویز اور زبان کو دونوں ہونٹوں کے درمیان دبا کر رسٹی ورک(کلائی کا استعمال)کا شاندار استعمال کرتے ہوئے گیند کو باؤنڈری کے پار پہونچانا اسکی پہچان بن گیااور فیلڈنگ کرتے وقت کیا مجال ہے کہ گیند اسکے پاس سے نکل جائے، چستی پھرتی ایسی کہ ناممکن کیچ کو بھی لپک لے۔آف اسٹمپ کے باہر جاتی ہوئی جس گیند کو عام طور پر بلے باز چھوڑ دیا کرتے تھے یا پھر کور میں کھیلتے تھے اس گیند کو اظہر الدین مڈآف یا مڈوکٹ کے اوپر سے باؤنڈری کے پار پہونچانے لگے، مخالفین کو چھکانے کا یہ منفرد انداز تھا اظہر الدین کا ۔اپنے 16-17سالہ کرکٹ کیریئر میں محمد اظہر الدین نے کئی شاندار میچ وننگ پاریاں کھیلیں۔ آج بھی اظہر کی طرح کلائی کے استعمال کے ساتھ اسٹوک کھیلنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔
محمد اظہر الدین 31دسمبر 1984میں کولکاتہ (کلکتہ) کے ایڈن گارڈن میں انگلینڈ کے خلاف سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں سندیپ پاٹل کی جگہ پہلی بار ٹیم میں شامل کئے گئے اور پانچویں نمبر (تین وکٹ گرنے کے بعد)پربلے بازی کرتے ہوئے شاندار 110رن بنائے اس ٹیسٹ میں انہیں ایک ہی اننگ کھیلنے کو ملی ۔
مدراس میں کھیلے گئے سیریز کے چوتھے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں اظہر نے 48اور دوسری اننگ میں 105رن بنائے۔ اس سیریز کا آخری ٹیسٹ یعنی پانچواں ٹیسٹ (جو اظہر کا تیسرا ٹیسٹ تھا) کانپور کے گرین پارک اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ جسکی پہلی اننگ میں اظہر نے 122رن اسکور کئے ۔ جبکہ وہ دوسری اننگ میں بھی وہ سنچری اسکور کر سکتے تھے ۔ دوسری اننگ میں اظہر کو تیسرے نمبر کھیلنے کیلئے بھیجا گیاتھا یہ ٹیسٹ میں میچ ڈرا کی طرف گامزن تھا اور ایک وقت بھارت کا اسکور ایک وکٹ پر 97رن تھا۔ بھارت کا جو ایک وکٹ گرا وہ سنیل گاوسکر کی شکل میں تھا۔ جبکہ اظہر الدین 54اور شریکانت 41رن بناکر ناٹ آؤٹ تھے (قابل غور بات یہ ہے کہ شریکانت کو تیزی سے رن بنانے کیلئے جانا جاتا تھا لیکن یہاں اظہر نے شریکانت سے زیادہ تیزی سے بنائے)کپتان گاوسکر نے اسی اسکوپر اننگ ڈکلیئر کر دی ۔ اگر وہ اننگ ڈکلیئر نہ کرتے تو شاید اظہر دوسری اننگ میں بھی سنچری بنا دیتے اور انکے نام پہلے تین ٹیسٹوں میں تین سنچریوں کی جگہ چار سنچریاں درج ہوتیں ۔ بہر حال پہلے تین ٹیسٹ میچ میں تین سنچریا ں بنانے کا ریکارڈ 40سال بعد بھی اظہر کے نام پر ہی درج ہے ۔ اپنی پہلی سیریز میں اظہر نے تین ٹیسٹ کی پانچ اننگ میں 109.75کی اوسط سے 439رن بنائے۔اظہر نے 99ٹیسٹ میچ اور 334ونڈے انٹرنیشنل میچوں میں بھارت کی نمائندگی کی ۔
99ٹیسٹ میں اظہر نے 45.03 کی اوسط سے 6215رن بنائے جس میں 22سنچریاں اور 21نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ٹیسٹ میچ میں ان کا سب سے بڑا اسکور 199رن ہے جو انہوں نے سری لنکا کے خلاف کانپور میں 1986-87کی سیریز میں بنایا۔ اسکے علاوہ ان کا دوسرا سب سے بڑا اسکور 192رن کا رہا جو انہوں نے 1990میں نیوزی لینڈ کے خلاف آکلینڈ ٹیسٹ میں بنایا۔ اسکے بعد انگلینڈ کے خلاف 182رن کولکاتہ ٹیسٹ(1993))، انگلینڈ کے ہی خلاف 179رن مان چیسٹر ٹیسٹ(1990)،163رن ناٹ آؤٹ آسٹریلیا کے خلاف کولکاتہ ٹیسٹ (1998)،163رن ناٹ آؤٹ جنوبی افریقہ کے خلاف کانپور ٹیسٹ996) (1 اس اننگ میں اظہر نے اپنی سنچری صرف 74 میں مکمل کی ااور ٹیسٹ میچ میں بھارت کی طرف سے سب سے تیز سنچری بنانے کے کپل دیو کے ریکارڈ کی برابری کی اسکے علاوہ 152رن سری لنکا کے خلاف موٹیرا ٹیسٹ (1994)اظہر کی قابل ذکر اننگوں میں شامل ہیں۔اسکے علاوہ 334ونڈے میچوں میں اظہر نے 36.92کی اوسط 9378رن بنائے جس میں سات سنچریا ں اور 58نصف سنچریا ں شامل ہیں ۔ ونڈے میں انکا سب سے زیادہ اسکور 153رن ناٹ آؤٹ ہے جو انہوں نے 1998میں کٹک میں زمبابوے کے خلاف بنایا ۔ 1988میں اظہر نے نیوزی لینڈ کے خلاف بڑودہ میں ونڈے میچ میں 62گیندوں میں سنچری بناکر بھارت ناممکن جیت سے ہمکنا رکرایا ۔ اس وقت یہ ونڈے کرکٹ سب سے تیز سنچری کا ریکارڈ تھا ۔
اسکے علاوہ اظہر الدین کو ایک بہترین فیلڈر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔انہوں نے ٹیسٹ میں 105اور ونڈے میں156 کیچ پکڑے۔ 90-1989 میں نیوزی لینڈ دورے کیلئے اظہر الدین کو غیر متوقع طور پر شریکانت کی جگہ قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا جبکہ اس سے قبل اظہر کو کبھی نائب کپتان کی ذمہداری بھی نہیں سونپی گئی تھی۔محمد اظہر الدین نے 47 ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی کپتانی کی جس میں 14 ٹیسٹ میں بھارت کو جیت حاصل ہوئی۔ اسکے علاوہ انہوں 174 ونڈے میچوں میں بھی کپتانی کرتے ہوئے 90 میچوں میں بھارت کو جیت دلائی۔اظہر نے بھارت کیلئے سب سےزیادہ تین بار ورلڈ کپ (1999,1996,1992)میں کپتانی کی۔1992 کےورلڈ کپ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیلے گئے میچ میں جاوید میانداد کے ساتھ اظہر کا ٹکرا قابل دید تھا۔ اظہر کی کپتانی میں بھارت نے دو بار (1995 ,1991) میں ایشیا کپ جیتا۔ان دونوں ایشیا کپ کے فائنل میں مین آف دی میچ بھی اظہر ہی رہے۔ اتنے شاندار ریکارڈ کے باوجود اظہر کے ذاتی زندگی تنازعات اور حادثات کا شکار رہی۔ 1987میں اظہر نے حیرآباد کی ہی نورین جہاں سے شادی کی جن سے انکے دو بیٹے ہوئے محمد ایاز الدین اور محمد اسعد الدین بڑے بیٹے محمد ایاز الدین کی 2011 میں ایک سڑک حادثہ میں موت ہوگئے۔انکے چھوٹے بیٹے محمد اسعد الدین حیدرآباد کیلئے گھریلو کرکٹ کھیلیں رہے ہیں انکی شادی بھارت کی اسٹار ٹینس کھلاڑی ثانیہ مرزا کی چھوٹی بہن انم مرزا سے ہوئی ہے۔1996 میں نورین سے طلاق کےبعد اظہر نے فلم اداکارہ سنگیتا بجلانی سے شادی کی لیکن بیڈمنٹن کھلاڑی جوالا گٹا کے ساتھ انکا نام جڑنے کی افواہوں کے بعد 2010 میں اظہر اور سنگیتا کی طلاق ہوگئی۔2000 میں مبینہ میچ فکسنگ میں شامل ہونے کے الزام سے اچانک اظہر کا کیریئر ختم ہو گیا۔
بھارتیہ کرکٹ بورڈ نے اظہر پر تاعمر کی پابندی لگادی۔2003 میں ایک ٹرائل کورٹ نے اس پابندی کو جاری رکھا لیکن 8نومبر 2012 کو آندھراپردیش ہائی کورٹ نےفیصلے کو پلٹتے ہوئے پابندی ہٹا دی۔2019 میں اظہر کو حیدر آباد کرکٹ ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کیا گیا۔دریں اثناء محمد اظہر الدین نے 2009 میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا اورکانگریس کے ٹکٹ پر مرادآباد سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔2014 میں انہوں نے ٹونک لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑا اور ہار گئے۔ 2018 میں انہیں تیلنگانہ کانگریس کا کارگزار ریاستی صدر بنایا گیا۔ 2023 میں انہوں حیدر آباد سے اسمبلی الیکشن لڑا لیکن ہار گئے۔اظہر الدین کو 1986 میں ارجن ایوارڈ سے اور 1988 میں پدم شری سے نوازا گیا۔1991 میں اظہر کوویزڈن کے پانچ بہترین کرکٹروں شامل کیاگیا۔2023 میں جامعہ ہمدرد نئی دہلی نے اظہر کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔