لکھنو 9اگست: متھرا شاہی عیدگاہ اور کرشن جنم بھومی تنازعہ سے متعلق گزشتہ دنوں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا، اس سے ناراض مسلم فریق نے سپریم کورٹ کا رخ کر لیا ہے۔ یکم اگست کو ہائی کورٹ کے ذریعہ سنائے گئے اس حکم کے خلاف مسلم فریق نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر دی ہے جس میں ملکیت سے متعلق ہندو فریق کے داخل سول سوٹس (دیوانی مقدمات) کو سماعت کے لائق مانتے ہوئے مسلم فریق کی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا۔ مسلم فریق نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو قبول کرنے سے منع کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں خصوصی اجازت کی عرضی داخل کی ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے شاہی عیدگاہ مسجد-شری کرشن جنم بھومی کے کمشنر سروے پر بھی فی الحال عبوری روک کو مزید آگے بڑھا دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی وہ سماعت کریں گے۔ پہلے بھی مسلم فریق نے سپریم کورٹ میں اس تنازعہ کو لے کر عرضی داخل کی تھی جس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کر دی تھی۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت 18 نومبر کو ہوگی جس میں دونوں فریقین کی دلیلوں کو سنا جائے گا۔ واضح رہے کہ متھرا شاہی عیدگاہ اور کرشن جنم بھومی کا تنازعہ 13.37 ایکڑ زمین کو لے کر ہے۔ اس میں تقریباً 11 ایکڑ پر شری کرشن جنم استھان مندر اور 2.37 ایکڑ زمین پر شاہی عیدگاہ مسجد ہے۔ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ اسی زمین پر شری کرشن جنم استھلی پر بنے قدیم کیشوناتھ مندر کو توڑ کر شاہی عیدگاہ مسجد کو بنایا گیا تھا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اورنگ زیب نے 70-1669 میں توڑ کر جگہ پر ناجائز طریقے سے قبضہ کیا اور پھر مسجد کی تعمیر ہوئی۔