بھوپال:12اپریل: ان الدین عند اللہ الاسلام ۔اللہ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے ۔ اس کی پیروی اور ضابطے کے مطابق زندگی گزرانا ہی مقصد حیات اور حاصل زندگی ہے ۔ روز جزا(میدان محشر ) میں ہر بندے کے ساتھ احکام اسلام اور ضابطہ اسلام کے مطابق ہی سولات کئے جائیں گے ۔اگر بندے کا نامہ اعمال دین اور مذہب اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے تو اس کیلئے خوشخبری ہے اور جس بندے کا نامہ اعمال احکام الاسلامی اور ضابطہ دین کے خلاف ہے ،اس کے ساتھ اس کی توقع کے خلاف برتائو ہوگا۔میدان محشر کی اس حقیقت کو ہمیں زندگی کے ہر لمحے میں پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اگر ہم نے اس دنیا میں ذرہ برابر بھی نیکی کی ہے تو اس کا بدلہ ہمارے سامنے آئے گا اور اگر ذرہ برابر برائی کی ہے تو اس کا بدلہ بھی ہمارے سامنے ہوگا۔گزشتہ کل ہم لوگوں نے نماز عید الفطر ادا کی اور آج ہم نماز جمعہ ادا کررہے ہیں ،گویا اللہ نے ہمیں امسال بلا فصل دو دن ایسے عطا کئے جو اپنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے بہت اہم ترین دن ہیں ۔عید ہمیں رمضان کے روزے رکھنے کے بدلے عطا کی گئی اور حکم دیا گیا کہ آج کے دن اپنی بساط اور وسعت کے مطابق کھائو پیو۔یاد رہے کہ ہمیں عید کے دن کھانے پینے کا حکم دیا جارہا ہے ۔اللہ کی طرف سے یہ حکم اس بات کی صراحت ہے کہ آج کے دن ہم روزہ نہیں رکھ سکتے ۔ اگر ہم نے عید کے دن روزہ رکھ لیا تو یہ حرام ہے جب کہ عید سے قبل ہمارے لئے یہ حکم تھا کہ تم کھا پی نہیں سکتے۔معلوم ہوا کہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے بندے روزہ رکھا ،بھوک لگی مگر کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا،پیاس لگی مگر پانی کا ایک قطرہ بھی حلق کے نیچے جانے نہیں دیا،کسی بات پر بہت غصہ آیا مگر ضبط کرگیا کیوں کہ اسے خیال آیا کہ میں روزے سے ہوں ۔الغرض روزے کی حالت میں ہر اس کام سے خود کو دور رکھا جس سے اللہ تعالیٰ نے رک جانے کا حکم فرمایا ہے اور جب ماہ شوال کا چاند نظر آیا اور انعام کی صورت میں ہمیں یوم عید ملا تو اللہ نے بڑی محبت سے ہمیں کھانے پینے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ حکم فرمایا کہ آج کے دن روزہ رکھنا حرام ہے ،کھائو پیو اپنے اہل و عیال اور خویش و اقارب پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرو ۔مگراحکام شریعت کی پیروی جس طرح رمضان میں فرض تھی رمضان بعد بھی اس کی فرضیت میں کوئی کمی نہیں آنے والی ہے ۔رمضان میں ہم نے جس طرح نمازیں پڑھیں ،اپنی نگاہوں کی حفاظت کی ،اپنی زبان کو مغلظات و مکروہات سے بچاکر اللہ کی تمہید و تقدیس سے مزین کیا،خوش اخلاقی اور خوش کلامی کا اپنا شعار بنانے کی حتی المقدور کوششیں کیں،غریبوں اور بیکسوں کا خیال رکھا۔یہ تمام چیزیں رمضان بعد بھی ہماری ذات کا حصہ ہونا چاہئیں ۔اسلام کا یہی سبق ہے ۔در اصل رمضان المبارک میں ایک فرض (روزہ) اللہ کی فرماں برداری میں ہمارے خصوصی طور پر فرض کیا گیا ہے ورنہ ذرا ہم غور کریں تو ہماری زندگی کا ہر دن اور ہر لمحہ روزے کی طرح ہی ہے جس میں ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری فرض ہے۔
ہماریزبان،ہمارےدماغ، ہمارےکان، ہمارے ہاتھ، ہمارے پائوں ،ہمارے دل، الغرض ہمارے جسم کے تمام اعضاء کا روزہ ہم پر ہر دن فرض ہے جس میں ہمیں اپنے تمام اعضاء کا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق کرنا ہے ۔ رمضان ہماری تربیت کا مہینہ تھا۔ہم نے ایک ماہ تربیت لی اب ہمیں سال بھر دین حنیف کی پیروی میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے ۔ جب ہم نے آمنت باللہ ….کا دل سے اقرار کیا ہے تو اب ہمیں ایک اچھا مسلمان بننے کیلئے اس کلمے کے تقاضے کو پورا کرنا ہی ہوگا اس کے بعد ہی ہم اللہ کے نزدیک ایک محبوب بندے کا رتبہ حاصل کرسکیں گے ۔آخر میں ہم اپنے بھوپال کے مسلمان بھائیوں سے گزارش کریں گے کہ جس طرح آپ نے ماہ رمضان کا احترام کیا اور اس کے تقاضے کو بساط بھر پورا کرنے کی کوششیں کیں ،آئندہ بھی آپ اسی ایمانی جذبے کے ساتھ اپنی زندگی ایسی گزاریں جو زندگی خالق کائنات کو مطلوب ہے۔
رمضان المبارک کی ہر گھڑی ایسی لگتی تھی کہ بھوپال کی پوری فضا ایمانی بن گئی ہے ،ہم اس ایمانی فضا کو سال بھر اسی طرح قائم و دائم رکھ سکتے ہیں۔ بس اپنی چاہت کو اپنے معبود سے جوڑ لیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو شریعت و معرفت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔