بھوپال:7؍مارچ:مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بظاہر تعلیم اردو کے لئے مشہور ہے لیکن اس ادارہ نے پولیٹکنک، انجینئرنگ، اسکل ڈیولمنٹ، الکٹرانک، ایم ایڈ،بی فارما، پولیٹیکنک، آٹو موبائل، شیپنگ،ہاسپٹل منیجمنٹ، ہوٹل منجمنٹ، پروفیشنل کورسس اور ہائر ایجوکیشن میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اب غریب اور محنتی طلبہ و طالبات کی نگاہوں میں سب سے پہلی پسند مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بن چکی ہے۔
بہت کم خرچ میں میعاری اور پروفیشنل کورس مکمل کرکے بہت کم وقت میں طلبا اپنا کیریئر بنا رہے ہیں۔یہ ادارہ غریب اور محنتی طبقہ کے لئے ایک نعمت ثابت ہورہا ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار جناب پروفیسر وناجا ایم ،ڈین اسکول آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ مانو، حیدرآباد نے کیا ۔آپ مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی میں کالج آف ٹیچر ایجوکیشن ، بھوپال کے زیر اہتمام ایک روزہ سمپوزیم، میں خطاب کر رہے تھے۔ اس ایک روزہ سمپوزیم کا عنوان ’’تعلیمی اداروں، کمیونٹی اور سول سوسائٹیز کے درمیان شراکت داری کو فروغ دینا:مانو کے کیمپسز کا کردار‘‘تھا۔
ملٹی پرپز ہال ، مانو بھوپال کیمپس میں منعقدہ پروگرام میں سابق ڈی جی پی آئی پی ایس ایم ڈبلیو انصاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی تعلیمی سرگرمیوں اور خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔آپ نے کہا کہ ایسے تعلیمی پروگرام اور خدمات تیار کرنا چاہئے جو کمیونٹی کی شناخت شدہ ضروریات کو براہ راست پورا کریں۔ کمیونٹی کے اندر متنوع دلچسپیوں اور آبادیات کو پورا کرنے کے لیے کورس کی پیشکش، ورکشاپس اور ایونٹس کو حسب ضرورت کرنا چاہئے۔نیز کیمپس سے باہر کی سرگرمیوں اور اقدامات کے لیے منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے عمل میں کمیونٹی کے اراکین کو شامل کریں۔نیز اس بات کو یقینی بنائیں کہ کیمپس سے باہر مراکز ثقافتی طور پر حساس اور جامع جگہیں ہیں جو کمیونٹی کے تنوع کا احترام کرتے ہو۔ مقامی ثقافتوں، زبانوں اور روایات کو منانے والے پروگرام اور وسائل پیش کریں۔آپ نے تعلیم کے تعلق سے ایک قول نقل کیا
“Education is an instruments in prosperity and a great refuge in adversity” (Chinese Proverb)
تقریب میں بڑی تعداد میں عوام و خواص موجود رہے۔ خاص طور پر پروفیسر نعمان خان، سابق ڈی جی پی ایم ڈبلیو انصاری، محترم احمد حسین، پروفیسر نوشاد حسین، ڈاکٹر بھانو پرتاپ پریتم، پروفیسر آصفہ یاسین، پروفیسر مرتضی رضوی، محترم نتن سکسینہ، ڈاکٹر اوشا کھرے اور محترم کمود سنگھ وغیرہ موجود رہیں۔