عید اور عیدی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ عید آتی ہے تو عیدی بھی آ تی ہے ۔ عید کے معنی ہے خوشی کے ۔ اور عیدی کے معنی ہے خوشی کی قیمت کے ۔ جی ہاں آ ج کے اس ترقی پسند دور میں عیدی کے یہ ہی معنی نکالے اور سمجھے جاتے ہیں ۔گزرے زمانے میں عیدی کے معنی ہوا کرتے تھے بزرگی ، شفقت اور محبت کے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل چکا ہے تو معنی کا بدل جانا تو معمولی سی بات ہے ۔ گزرے زمانے میں بچوں کو روزے نماز سے جوڑنے کے لئے عیدی کا رواج تھا ۔ رمضان کا چاند ہوا نہیں کے ماں باپ دادا دادی نانا نانی بچوں کو دعوت دیا کرتے تھے کہ جو پورے روزے رکھے گا پوری نماز ادا کرے گا اسے عیدی دی جائے گی جو وہ چاہے گا ۔ جو آدھے روزے رکھے گا اور آدھی نماز ادا کرے گا اسے اتنی ہی عیدی ملے گی اور جو صرف تین روزے رکھے گا اس کو یہ عیدی ملے گی وغیرہ وغیرہ ۔ بحرحال جتنی عمر کے بچے اتنے ہی عیدی کے ذمرے اور بچے عیدی کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے اور نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس طرح سے بچوں میں روزے رکھنے اور نماز پڑھنے کی عادت کو پیدا کیا جاتا تھا ۔ بچے رمضان میں روزے رکھتے اور نماز کی پابندی کرتے تو خود بہ خود مذہب سے قریب ہوتے جاتے تھے ۔ مذہب سے قریب ہوکر وہ دین کی باتیں ، شریعت اور اسلام کو بخوبی سمجھ لیتے تھے جو باتیں اساتذہ ، مولوی برسوں میں نہیں سکھا پاتے تھے وہ بچے عیدی کے چکر میں صرف ایک مہینے میں سیکھ لیتے تھے ۔دینی علم کچھ ایسا ہے کہ جس نے ایک بار یاد کیا سو عمر بھر کے لئے یاد ہو جاتا ہے ۔ بس پھر کیا تھا عید ہوتی اور وعدے کے مطابق عیدی مل جاتی تو عید میں عید ہوجاتی تھی۔ خاندان کے بزرگ عیدگاہ سے سجدہ شکر ادا کر کے لوٹتے اور گھر بھر کے بچے انھیں عیدی کے لئے گھیر لیتے ۔ بزرگ بھی بچوں کی عیدی عیدی کی رٹ کے درمیان اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتے اور بچوں کے گھیرے اور شور غل سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ وعدے کے مطابق سب کو عیدی تقسیم کرکے لطف اندوز ہوتے اور عیدی کے ساتھ ساتھ شفقت محبت دلار اور دعائیں بھی دیتے تھے ۔ گزرےزمانے کے بچے پہلے عیدی حاصل کرنے کے لئے شور غل مچاتے اور عیدی مل جانے کے بعد عیدی ملنے کی خوشی میں گھر کو سر پر اٹھالیتے تھے ۔ بچوں کی مستی میں گھر کے بڑے بزرگ بھی شامل ہو جایا کرتے تھے جس سے عیدی کا جشن اور بھی پر لطف و دلچسپ ہوجایا کرتا تھا ۔ عیدی کے جشن کی وجہ سے عید کی خوشیوں میں چار چاند لگ جایا کرتے تھے ۔ عیدی جیسی بھی ہوتی جتی بھی ہوتی وہ اپنی جگہ لیکن بچوں کو تمیز ، سلیقہ ، اخلاق و محبت سکھاتی تھی ۔ رشتوں میں مضبوطی اور خلوص کی چاشنی گھول دیتی تھی ۔
اب نہ وہ عیدیں نظر آ تی ہیں اور نہ عیدی کا وہ جشن ۔!! بلکہ اس زمانے کے بچے تو عیدی کے سلسلے میں کچھ بھی نہیں جانتے ۔ جو جانتے بھی ہیں وہ عیدی مانگنا تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ آج کی ترقی پسند مائیں بچوں کو پہلے ہی سےسکھا دیتی ہیں۔ دیکھو چنٹو ، منٹو اور پنٹو تم کسی سے کوئی عیدی وغیرہ نہیں مانگنا ۔۔۔ عیدی مانگنا بہت خراب لگتا ہے ۔ یہ عیدی مانگنا بھکاریوں کا کام ہے ۔ سمجھے کے نہیں ۔ میں نے تمہارے ڈیڈ سے کہہ دیا ہے وہ تمہیں فلم دیکھنے اور موج مستی کرنے کے لئے پاکٹ منی دگنی دینے والے ہیں ۔ ۔ مام از گریٹ ۔ ۔ ترقی پسند بچے بھی اپنی ماں کی بات کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔ ماں باپ کی اسی سیکھ کی وجہ سے عیدی کا جشن ختم سا ہو کر گیا ہے ۔ ہم نے عیدی لینے کا لطف تو خوب اٹھایا ہے لیکن عیدی دینے کے مزے سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ کیونکہ ہمارے بچے بھی انگریزی تعلیم کے چکر عیدی وغیرہ کے جشن سے بے بہرہ ہیں
یہ الگ بات ہے کہ وہ عیدی ضرور وصول کرتے ہیں ۔ لیکن روزے رکھ کر یا تراویح ادا کرکے نہیں بلکہ بڑا بیٹا ہر سال رمضان شریف کے آ تے ہی راگ الاپ نے لگتا ہے ۔۔۔ ” ڈیڈ ۔۔۔ میری موٹر سائیکل کو پورا ایک سال ہوگیا ہے ۔۔۔۔ پچھلے سال عید پر بدلی تھی ۔ اس سال پھر نئے نئے ماڈل اگئے ہیں ۔ میرے سارے دوستوں نے اپنی اپنی موٹر سائیکل بدل لی ہے ۔ آ پ مجھے کونسی بائیک دلا رہے ہو ۔!؟ اور ہم ناچاہتے ہوئے بھی اسے نئ موٹر سائیکل دلانے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں ۔ نہ دلاؤ تو ںیگم سینہ تانے بیٹے کی طرفداری کےلئے کھڑی ہو جاتی ہے ۔
موٹر سائیکل دلاؤ تو عید کے دن بیٹے کے دیدار مشکل ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ وہ سارا دن دوستوں کے ساتھ سڑکیں ناپتا رہتا ہے ۔ بیٹی ہے وہ کچھ سنجیدہ قسم کی ہے ۔ ماں جو بھی دلا دیتی ہے خاموشی سے رکھ لیتی ہے ۔ ماں بیچاری ابھی سے اسکی شادی کا خیال رکھ کر کوئی زیور خرید کر دے دیتی ہے جو اس کے شادی میں دینے کے کام آ ئے گا ۔ اتنا بڑا گھر اور ہم چار نفوس عید کے دن عیدی کے جشن کے بغیر گھر سونا سونا سا لگتا ہے نہ شور و غل نہ عیدی عیدی کے نعرے نہ دھوما چوکڑی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ عید کا طریقہ بھی بدل گیا ہے جس میں عیدی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔
میرا دل اب بھی چاہتا ہے کوئی آئے عیدی مانگے ۔ عیدی کے لئے بضد ہو جائے ۔ میں چند لمحے نا نکور کرکے اسے عیدی دے دوں اور وہ خوش ہو کر مجھ سے لپٹ جائے اور میرا گھر ۔۔ گھر کے در و دیوارِ عیدی کے نعروں سے گونج اٹھے تو میری عید ہوجائے ۔ عیدی ۔ میں اسی خیال سے عید کے دن اپنے بچپن کی عیدوں کو عیدی کے جشن کو یاد کرکے گزار دیتا ہوں ۔۔ ہائے کیا دن تھے کیا عیدیں تھی اور کیا عیدی کا جشن ۔!!
ڈاکٹر رونق جمال (درگ ، چھتیس گڑھ )
8839034844