بھوپال:یکم ؍فروری:حجاب اسلام کاایک اہم حصہ ہے، جو نہ صرف عورت کے لیے پردے کا حکم دیتا ہے بلکہ معاشرتی نظم و ضبط اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں، جب دنیا تیزرفتار ترقی اور جدت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، حجاب کی ضرورت اور اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
آج کے دور میں میڈیا، انٹرنیٹ، اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی موجودگی نے معاشرتی اقدار کو ایک نئے چیلنج کا سامنا دیا ہے۔ فحاشی اور بے حیائی عام ہوچکی ہے، اور نوجوان نسل ان اثرات سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ حجاب نہ صرف عورت کو ان فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اسے عزت، تحفظ اور خود اعتمادی کا احساس بھی دلاتا ہے۔
موجودہ دور میں خواتین کو مختلف قسم کی ہراسانی اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے وہ دفاتر ہوں، تعلیمی ادارے ہوں یا پبلک مقامات، خواتین کو اکثر غیرمحفوظ حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ حجاب عورت کو ایسے حالات میں تحفظ فراہم کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف پردے کا ذریعہ ہے بلکہ دوسروں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ عورت کی عزت اور حرمت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں، خواتین کا تحفظ اور زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حجاب ایک ایسی علامت ہے جو خواتین کو دنیا میں اپنی روایت سے جڑے رہنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ان کی انفرادیت کو اجاگر کرتا ہے اور انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ مثلاً مسلم عورتیں برقعہ پہن کر اپنی اسلامی شناخت کو ظاہر کرتی ہیں تو وہیں دیگر مذاہب کی عورتیں بھی گھونگھٹ وغیرہ کرتی ہے اسی طرح عیسائی عورتیں بھی پردہ اور حجاب کا اہتمام کرتی ہیں۔
حجاب خواتین کو روحانی طور پر بھی مضبوط بناتا ہے۔ مالک کے قریب ہونے کا احساس دلاتا ہے اور اس کے دل میں اپنے مذہب کی محبت پیدا کرتا ہے۔ حجاب صرف جسمانی پردہ نہیں بلکہ دل اور نیت کی پاکیزگی کی علامت بھی ہے۔
موجودہ دور میں حجاب کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ خواتین کے لیے ایک ڈھال بھی ہے جو انہیں معاشرتی برائیوں، ہراسانی، اور اخلاقی زوال سے محفوظ رکھتا ہے۔ حجاب عورت کی آزادی، عزت اور تحفظ کی ضمانت ہے، اور یہی اس کے لیے حقیقی آزادی کا راستہ ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عورت عزت کی چیز ہے نہ کہ لذت کی۔ ابتدائے زمانے میں انسان عریہ تھا اب ایک بار پھر انسان وہی تاریخ دہرانہ چاہتے ہیں۔اب لوگوں کا یہ تصور ہے کہ جو جتنا ہی برہنہ اور عریہ ہوگا وہ اتنا ہی ماڈرن سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہر سلیم العقل انسان اپنے عزیز و اقارب میں خواتین کو باپردہ رکھنا چاہتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ زمانے بھر کی گندی نظر سے ہمارے گھر کی خواتین حجاب کے ذریعہ محفوظ رہیں۔یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے میں بھی بادشاہوں اور راجہ مہاراجہ کے یہاں بیگمات پردے کا اہتمام کرتی تھی حتی کہ ہندو عورتیں بھی گھونگھٹ کے ذریعہ پردہ کا اہتمام کرتی تھیںجیسا کہ آج بھی بعض علاقوں مثلاً راجستھان، یوپی، بہار اور دیگر صوبوں میں بھی رواج ہے۔
تاریخ اُٹھا کر دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں عورت کے پردے اور حیا کو ایک خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ہر مذہب اپنی تہذیب، روایات اور اصولوں کے مطابق عورت کے لیے ایسے لباس یا انداز کا تعین کرتا ہے جو اس کی عزت و عصمت کی حفاظت کرے۔ گھونگھٹ کرنا یا پردے میں رہنا بھی ایک ایسا ہی عمل ہے جو مختلف مذاہب میں مختلف انداز میں موجود ہے۔
ہندو مذہب میں گھونگھٹ کرنے ا تصور صدیوں پرانا ہے۔ خاص طور پر بھارت کے دیہی علاقوں میں ہندو عورتیں اپنے شوہر کے بزرگوں اور خاندان کے دیگر مردوں کے سامنے گھونگھٹ کرتیں ہیں۔ یہ عمل احترام اور حیا کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ رامائن اور مہابھارت جیسے مقدس متن میں بھی عورت کے پردے کا ذکر موجود ہے۔
اسلام عورت کے پردے کو ایک مقدس فریضہ قرار دیتا ہے۔ قرآن پاک میں پردے کے احکامات واضح طور پر موجود ہیں، جہاں عورتوں کو اپنی زینت چھپانے اور غیر محرم مردوں کے سامنے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اب تمام مذاہب کے لوگ اسلام کے اس حکم کو پسند کرنے لگے ہیںاور اب بہن بیٹیاں پردے میں ہی اپنا تحفظ سمجھتی ہیں۔
عیسائی مذہب میں بھی پردے کا تصور پایا جاتا ہے۔ قدیم دور میں عیسائی عورتیں چرچ میں حجاب یا سر ڈھانپ کر جاتی تھیں، جو احترام اور عاجزی کی علامت تھا۔ آج بھی عیسائیوں میں خواتین کو سر ڈھانپنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
ہر مذہب میں عورت کے پردے اور عزت کو بلند مقام دیا گیا ہے۔ گھونگھٹ یا پردے کا تصور صرف ایک ثقافتی روایت نہیں بلکہ ہر مذہب کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے۔ یہ عورت کی عزت و وقار کی حفاظت اور معاشرتی احترام کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ مختلف مذاہب میں گھونگھٹ کے طریقے اور انداز مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن ان کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا ہے: عورت کی عزت اور حیا کی حفاظت۔
الغرض عالمی یوم حجاب کے موقع پر یہی پیغام ہے کہ چاہے زمانہ کوئی بھی ہو ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا دور ہو یا ابتدائے زمانہ، خواتین پردے کی چیز تھیں، ہیں اوررہیں گی۔ یہ ہے اسلام کا حسن جس نے صدیوں پہلے حجاب اور پردے کا حکم دے کر عورتوں کو تحفظ فراہم کر دیا جسے آج پوری دنیا اپنا رہی ہے ۔بہن ، بیٹیاں آج اس بات کو سمجھ گئی ہیں کہ پردے میں ہی ان کا تحفظ ہے ۔اسلئے لڑکیاں اور عورتیں چاہے جس مذہب کی بھی ہو آج خود کو پردے میں رکھ کر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔