بھوپال:06 ؍نومبر:ترانہ ہندی کے خالق،حکیم الامت علامہ اقبال کی ولادت۹؍ نومبر۱۸۷۷ء؁کو سیالکوٹ میں ہوئی اور انتقال۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء؁کو لاہور میں ہوا۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی یوم ولادت کو یوم اُردو کے طور پر اُردو دنیا میں منایا جاتا ہے۔اقبال ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی فکر انگیز تخلیق سے اُردو کو نہ صرف عالمی سطح تک پہنچایا بلکہ اپنی بلند خیالی سے اُردو زبان و ادب کو وہ مقام عطا کیا کہ اُردو کی شاہکار تخلیق دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کے ہم پلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت کی بیٹی اپنی خود کی طاقت پر یو این اُو کی دفتری زبان بن گئی ہے۔
ان کی تحریروں کو صرف اُردو حلقہ یا مسلم قوم تک رکھ کر دیکھنا بڑی نا انصافی ہوگی۔لیکن آج اُردو کوکسی ذات،مخصوص طبقہ و مذہب سے جوڑ کر نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔حالانکہ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ بھارت کے آئین کے آٹھویں شیڈول میں بھارت کی 22 سرکاری زبانوں کی فہرست میں اردو شامل ہے ۔اُردو کو ختم کرنے کی کوشش بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 کی خلاف ورزی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی میں تین زبانوں کا فارمولہ ہے جس کے تحت طلبا کو کم از کم تین زبانیں سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ فارمولہ سرکاری اور پرائیویٹ دونوں طرح کے اسکولوں پر نافذ ہوتا ہے۔ کوٹھاری کمیشن، 1964 نے ‘تین زبانوں کا فارمولہ’ اس طرح پیش کیا – (1) مادری زبان یا علاقائی زبان، (2) مرکز کی سرکاری زبان یا صوبہ کی سرکاری زبان، (3) جدید بھارتیہ زبان یا غیر ملکی زبان۔بھارت کے شمالی خطہ کے کئی علاقوں جیسے لکھنو، دہلی اور انکے آس پاس میں رہنے والوں کی مادری زبان اردو ہے،اسی طرح کسی کی زبان تیلگو ہے ، کسی کی مراٹھی تو کسی کی بھوجپوری ہے اور طلباء کو اپنی مادری زبان میں پڑھنے میں کا پورا حق قومی تعلیمی پالیسی میں بھی دیا گیا ہے ۔ ایک طرف حکومت تمام بھارتی زبانوں، بشمول اردو، میں تعلیم کو فروغ دے رہی ہے اور قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 میں مادری زبان کے ذریعے تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے۔ایسے میں محض اُردو کے تئیں تعصبانہ رویہ قابل افسو س ہے۔ اس تعصبانہ رویہ کے خلاف ہم سب محبان اُردو، بھارت کے باشندہ گان جن کو اُردو سے محبت ہے اس بھارت کی بیٹی کے ساتھ ہورہے مظالم کے خلاف مل کر آواز بلند کریں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ محض ایک دن خاص کرکے جشن اُردو کے نام پر تقاریب کا انعقاد کر لینا کافی نہیں ہے۔ یہ اُردو سے محبت کا تقاضہ نہیں ہے۔بلکہ محبت کی اس شیریں زبان کے لئے اگر ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آئیے اس عالمی یوم اُردو کے موقع پر ہم اُردو کے ساتھ ہو رہی ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے کا عزم کریں اور یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اُردو بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن ہے اور رسم الخط اس کا لباس ہے ۔سب سے ضروری اُردو رسم الخط ہے۔ہمیں اُردو رسم الخط اختیار کرنا ہوگا۔ہر ایک یہ بھی یقینی بنائے کہ ہمارے گھر میں کم از کم ایک اُردو اخبار ضرور آنا چاہئے۔کبھی کبھار معیاری اُردو میگزن بھی گھر میں لاکر رکھیں اور اپنے گھروالوں سے اس کا مطالعہ کرنے کو کہیں۔ اپنے بچوں کو بھی اُردو سکھائیں۔بچوں کے درمیان اُردو لکھائی ،پڑھائی اور مضمون نگاری کے مقابلے کرائیں جس سے ان کے اندر اُردو لکھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔اس کے علاوہ سب سے اہم یہ ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو نصاب کی کتابیں اُردو زبان میں مہیا کرانا اپنی اولین ذمہ داری سمجھیں۔خاص طور پر سائنسی علوم اور حساب وغیرہ کی کتابوں کے لئے جدوجہد کریں اور اس کی دستیابی کے لئے سرکار سے مطالبہ کریں اور آواز بلند کریں ، ساتھ ساتھ اُردو اساتذہ کی تقرری کے لئے جہاں جہاں بھی آسامی ہوں اس کے لئے بھی آواز اُٹھائیں۔
ہم جتنے بھی پروگرام اُردو کے نام پر کریں ان میں نئی نسلوں کو مدعو کریں۔ حکومت سے اپنے جائز حقوق کے لئے مطالبہ کریں۔ اگر ہم اپنی زبان کے تحفظ کے لئے اقدامات نہیں کریں گے اپنی آواز بلند نہیں کریں گے تو حکومت بھی ہمارے حقوق ہمیں نہیںدیگی اور جو ادارے اُردو کے نام پر قائم ہیں وہ بھی دھیرے دھیرے کرکے بند کر دئیے جائیںگے اور کئے جارہے ہیں اور جو ہیں وہ نام محض اور دکھاوے کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ بورڈ لگا ہوا ہے اور جیسا انہیں اُردو کی بقاء و فروغ کے لئے کام کرنا چاہئے تھا وہ نہیں کر پارہے ہیں کیونکہ سرکار سے جو مالی تعاون ملنا چاہئے تھا وہ یا تو نہیں مل رہا ہے یا پھر نام محض ہے۔
جیسا کہ ابھی حال ہی میں راجستھان اُردو اکیڈمی کو بند کر دیا گیا۔ اس طرح چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہم خود اپنی زبان کے محافظ بن سکتے ہیں اور اپنی زبان کی بقاء و فروغ میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔