طیبن نشا: آسام کیلئے تمغہ جیتنے والی پہلی مسلم خاتون ایتھلیٹ

0
13

نئی دہلی، 18 جنوری (یو این آئی) طیبن نشا ایک ہندوستانی سابق ایتھلیٹ ہیں۔ وہ اپنی بہترین کارکردگی کے لیے جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے سال 1974 میں ڈسکس تھرو میں قومی ریکارڈ توڑا اور کئی بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کا نام روشن کیا۔طیبن نشا، جن کا تعلق ضلع شیوساگر سے ہے، ایک متوسط مسلم گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ جب وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں تو ان کے والدین کا انتقال ہوگیا تھا۔کھیلوں سے دلچسپی کم عمری میں ہوگئی تھی۔ ایک قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے اپنے ابتدائی دنوں میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ رکاوٹیں ان کو مقاصد کے حصول سے نہیں روک سکیں۔ کم عمری میں اپنے والدین کو کھونا، ان کی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا، لیکن نشا کوگھرکی ذمہ داریوں نے زندگی میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دی۔ سال 1971 میں نشانے 9ویں انٹر اسٹیٹ ایتھلیٹک چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور احمد آباد میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس ٹورنامنٹ میں نشا نے کانسہ کا تمغہ جیتا اور قومی چیمپئن شپ میں تمغہ جیتنے والی اپنی ریاست آسام کی پہلی خاتون کھلاڑی بن کر کھیلوں میں تاریخ رقم کی۔جس زمانے میں طیبن نشا کھیلوں میں کچھ کرنے اور ملک کا نام روشن کرنے کا سوچ رہی تھیں وہیں ا ن کے قرب و جوار میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو باہر نکلنے والی لڑکیوں کے بارے میں ایسی باتیں کیا کرتے تھے جو بیرونی سرگرمیوں میں حصہ لینے نکلتی تھیں۔
لیکن نشا نے ان سب کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ بحران کی اس گھڑی میں یہ لوگ مددتو لازماً کریں گے ہی نہیں کریں۔اس کے برعکس باقی گھر والوں نے نشا کو مزید مضبوط اور حوصلہ بخشا۔جس وقت نشا کھیل کی پریکٹس کیا کرتی تھیں اس وقت ان کے پاس مشق کرنے کی زیادہ سہولیات میسر نہیں تھی لیکن وہ ہمیشہ ذہنی طور پر ہر چیز کے لئے تیار رہتی تھیں۔نشا کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کی لگن ہی ان کو کامیابی کی طرف لے جا سکتی ہے۔
ابتدائی دور میں ان کے والد نے ایک شاٹ پٹر اور جیولین پھینکنے والا بھی، نوجوان طیبن کو ابتدائی طور پر تربیت دی تھی۔ ان کے والد نے کھیلوں میں ان کی دلچسپی دیکھی اور نشا کو ہر روز کھیل کے میدان میں لے کر جاتے تھے ۔ جب نشا نے جیولین تھرو کے لیے رن اپ لیا تو ان کو دور دراز کے کھجور کے درخت کی چوٹی پر نشانہ بنانے کو کہا جاتا تھا۔طیبن نے ڈسک تھرو کی مشق بڑے عجیب و غریب ڈھنگ سے کی ۔چونکہ ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے رہا۔نشا کو کھیتی باڑی سے بھی بہت اچھی واقفیت رہی ۔ انہوں نے اپنے ایک کزن کی دھان کے کھیت میں مشق کے دوران اس کی مدد کرکے ڈسکس تھرو کی بنیادی باتیں سیکھنا شروع کیں۔ وہ ڈسکس پھینکتے تھے اور نشا ڈسکس کو جمع کرکے ان کو واپس پھینکتی تھیں۔ آہستہ آہستہ، نشا نے اپنے بازوؤں کو مضبوط کیا اور اسے کھیل کے میدان میں آزمانا شروع کیا۔حالانکہ نشا کو کبھی بھی مناسب تربیت نہیں مل سکی۔
لیکن نشا کے اندر وہ تمام صلاحیتں موجود تھیں جو دوسرے ممالک کے ان کے ہم عصر وں کے لئے تھیں۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان کی صلاحیتوں کو رنجیت گوگوئی نے دیکھا، جو اس کھیلوں کے منتظم تھے۔ انہوں نے اس چھوٹی شیو ساگر لڑکی کو آل آسام انٹر ڈسٹرکٹ ایتھلیٹکس میٹ میں ضلع کی نمائندگی کرنے کے لیے اسپانسر کیا۔جلد ہی، نشا نے ایشیائی کھیلوں، جاپان، امریکہ اور جنوبی افریقہ میں ہونے والے عالمی تجربہ کار ایتھلیٹکس اجلاس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ یہ نشا کی زبردست حوصلہ افزائی تھی۔ یہ ان کی بے پناہ لگن اور بہت سی قربانیاں دینے کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس کامیابی سے انہیں جو اعتماد ملا اس نے انہیں بڑے اہداف حاصل کرنے میں مدد کی ۔