پونے 3 مارچ : شمیم طارق: شخصیت اور علمی ادبی فتوحات کے موضوع پر پونا کالج کے آڈیٹوریم میں منعقدہ سیمینار میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سابق پرو-وائس چانسلر پروفیسر تسنیم فاطمہ نے کہا کہ پونا کالج کی اہم فتوحات میں ایک اہم فتح یہ ہے کہ اس نے شمیم طارق کی علمی ادبی فتوحات پر یہ سیمینار منعقد کیا ہے۔ جامعہ کے ہی سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ شمیم طارق شخصی اعتبار سے بھی لاجواب ہیں اور علمی اعتبار سے بھی۔ انہوں نے علم و ادب میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ بلا شبہ فتوحات کہلانے کی مستحق ہیں۔ آپ نے شمیم طارق کی علمی ادبی اور ذاتی زندگی کے کئی گوشوں پر روشنی ڈالی اور یہ بھی کہا کہ اتنے باکمال شخص کے کچھ حاسدین کا ہونا فطری ہے۔ حاسد سب کے نہیں ہوتے بلکہ انہی کے ہوتے ہیں جو خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر مہتاب عالم نے کہا کہ شمیم طارق کی ادبی خدمات فتوحات ہی کہے جانے کی مستحق تھیں اور اُن کا جشن منایا جانا بھی لازم تھا۔ انہوں نے اردو میں بہت کچھ ایسا لکھا ہے جس کو ‘شہہ رگ’ کی حیثیت حاصل ہے. کلیدی خطبہ کالج کے وائس پرنسپل پروفیسر معین الدین خان فلاحی نے پیش کیا اور اس کلیدی خطبے میں انہوں نے شمیم طارق کی مختلف جہتوں کو جمع کیا جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ شمیم طارق کی تحریر بہتر ہے یا تقریر ! کیونکہ قدرت نے انہیں دونوں نعمتوں سے نوازا ہے۔ فلاحی صاحب نے شمیم طارق کے کئی شعر بھی سنائے اور اس پر گفتگو کی۔ شمیم طارق نے بھی اس موقع پر مختصر خطاب کیا اور دہلی، علی گڑھ، بنارس، حیدرآباد، بھوپال، گلبرگہ، اورنگ آباد، ممبئی اور پونے وغیرہ سے آئے ہوئے مہمانوں کا نام لے کر کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علم و ادب کی کہکشاں پونا کالج کے آڈیٹوریم میں اتر آئی ہے۔ میں سب کو سننا پسند کروں گا میرا بولنا ضروری نہیں ہے ہاں یہ ضرور کہتا ہوں کہ جب میرے پاس کچھ نہیں تھا تو مایوس نہیں تھا آج کچھ ہے تو مغرور نہیں ہوں۔ میری کوشش فیض رساں بننے کی ہے۔
افتتاحی سیشن کے صدر اور کالج کے پرنسپل پروفیسر آفتاب انور شیخ نے پونا کالج کی اردو کو فروغ دینے کی کوششوں کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی زندہ ادیب پر سیمینار کے انعقاد کی روایت کو اور زیادہ مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
سیمینار کے ٹیکنیکل سیشن کی صدارت پروفیسر مسعود انور علوی، پروفیسر آفتاب احمد آفاقی اور پروفیسر عزیز بانو نے کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید نے شرکت کی اور کہا کہ میں شمیم طارق کو ایک زمانے سے جانتا اور اس حیثیت سے مانتا ہوں کہ انہوں نے غریبی میں نام پیدا کیا ہے۔ رزق حلال کے التزام میں تو وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی علمی ادبی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو پر جن لوگوں نے مقالات پڑھے ان کے نام حقانی القاسمی، جمشید احمد ندوی، عزیز بانو، اسلم چشتی، خواجہ کوثر حیات، مہتاب عالم، غضنفر اقبال اور عظمی تسنیم ہیں۔ نظامت و تعارف ابرار احمد، جاوید اختر، اور سید عبدالباری نے پیش کیے۔ آخری سیشن کی صدارت آفتاب احمد آفاقی نے کی۔ مہمان خصوصی کے طور پر شریک شاہنواز تھانہ والا نے کہا کہ شمیم طارق میرے خاندان کا حصہ ہیں اور دن رات کے ساتھ کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ان کی زندگی میں ریاکاری یا دکھاوا نہیں ہے میں ان کے بافیض ہونے کی بھی گواہی دیتا ہوں۔ صدارتی کلمات میں پروفیسر مسعود انور علوی نے کہا کہ شمیم طارق کا تعارف میرے والد نے 50 سال پہلے کرایا تھا۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ وہ کس طرح دن بہ دن تناور درخت بنتے گئے ہیں۔ میں ان کے شخصی اور علمی کمالات کا احاطہ ایک مجلس یا ایک تقریر میں نہیں کر سکتا۔ پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے موازنہ کی روایت اور اطلاقی و مشرقی شعریات کے حوالے سے شمیم طارق کی تنقید کا قابل اعتبار تجزیہ کیا۔ آفتاب احمد آفاقی کی جامع تقریر نےسامعین پر جادو جیسا اثر کیا اور وہ مسحورہو کر سنتے رہے۔ تنقید و تحقیق کی روایت کو آگے بڑھانے میں شمیم طارق کی کتابوں اور مضامین کے حوالے سے آفتاب آفاقی کی تقریر بہت موثر تھی اور چونکہ یہ سیمینار کی آخری تقریر تھی اس لیے اس پر بعد میں بھی صدائے تحسین بلند کی جاتی رہی۔عام طور سے اعتراف کیا گیا کہ اتنا کامیاب سیمینار پونا کی حالیہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔