کراچی :23؍ستمبر:مدھیہ پریش اردو اکیڈمی بھوپال گذشتہ کئی برسوں سے ادب وثقافت کی بے لوث خدمت کررہی ہے۔جس زما ے میں فضل تابش (مرحوم) اکیڈمی کے سیکریٹری تھے، انہوں نے ہماری بھوپال آمد پراکیڈمی کا دورہ بھی کروایا،وہاں کی کتابوں کی اشاعت کا کام اور اس وقت کا شعبہ کتابت دیکھ کر ہم متاثر ہوئے، مگر تبصرہ نہ کر سکے۔ فضل تابش صاحب نے ہمیں اکیڈمی کے تحت شائع ہو نے والی کتابوں کے تحفے بھی دیئے ا س کے بعد پروفیسر آفاق احمد اکیڈمی کے سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے، ا ن کے دور میں بھی مدھیہ پردیش اردو اکیڈیمی بھوپال نے گرا قدر خدمات ا جام دیں، جبکہ معروف عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر نصرت مہدی جب سیکریٹری کے عہدے پرفائز ہوئیں تو مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی بھوپال میں ایک واضح ادبی ثقافتی ا نقلاب نظرآیا۔ بے شمار ادبی وثقافتی تقریبات سے بھوپال کے ادبی وثقافتی حلقوں میں ہلچل مچادی۔پے درپے معیاری پروگرامز ڈاکٹر نصرت مہدی کے کریڈٹ میں ہیں، ان ہوں نے شاعروں، ادیبوں کی بے شمار کتابیں بھی اکیڈمی کے پرچم تلے شائع کیں اور اکیڈمی کے مالی تعاون سے کئی شاعروں، ادیبوں کی تخلیقات منظر عام پر آئیں۔
فاروق ا نجم جوبھوپال کے جا نے ما نے شاعروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، بھوپال کے معروف عوامی سطح کے شاعر تاج بھوپالی کے بھا نجے بھی ہیں، سو یہ شعری ماحول گھر میں ہی میسر آگیا تھا، تاج بھوپالی کی محبت نے گویا ابھرتے ہوئے شاعر کوگہ اب ادیااور وہ جلد ہی اپنا پہلا مجموعۂ کلام ”خوشبو نظرآئے“،منظرعام پرلے آئے، جس نے بھوپال کے ادبی حلقوں میں اپنی جگہ بنالی۔ ”خوشبو ظر آئے“ کی اشاعت کے بعد بھوپال کے ادبی حلقوں کی جا نب سے بے شمار انعامات، اعزازات اور اسناد سے نوازا گیا۔ آتش شوق اوربڑھا، شعری منزل کی جا نب سفر تیزی کے ساتھ طے ہو نے لگا اور پھر یکایک فاروق انجم کا دوسرا مجموعہ ”لہجہ گُل“ وہ بھی خوشبو بھرا، فضا کو معطر کرگیا تو ادبی حلقہ چو نک اٹھا اور اس دوسرے مجموعہ کلام کو بے حدداد وتحسین سے لبریز ماحول ملا۔ ”لہجہ گل“ فاروق ا نجم کا دوسرامجموعہ ٔ کلام ہے جس سے مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے شائع کیاگیا۔
”لہجہ گل“ اگرچہ فاروق ا نجم کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے اس کو پڑھکر ا ندازہ ہوتاہے کہ موصوف جو 1978سے شاعری کررہے ہیں،اتنے سالوں میں مزید منجھ گئے ہیں چو نکہ ادبی ماحول ا نہیں ورثے میں ملا۔اس لیے جابجاوہ اپنی شاعری میں بلندی پر پہنچے ہوئے نظرآتے ہیں۔زیرنظرمجموعے میں بہت خوبصورت تحریرکی گئی ہیں جو ا نکے دلی جذبات کی صحیح عکاسی کرتی ہیں ،جبکہ غزلوں میں جدید یت کا ر گ جھلکتا ہے، ا نکے بعض اشعار تو سیدھے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں، مثلا:
یاروں کو کیا ڈھو نڈرہے ہو وقت کی آ نکھ مچولی میں
شہر میں وہ تو بٹے ہوئے ہیں اپنی اپنی ٹولی میں
یہ جھوٹ نہیں شہر کے دن بدلے ہیں لیکن
سچ یہ بھی ہے فٹ پاتھ پہ فنکار ہے اب تک
بحیثیت شخص ہے آبادیوں میں رہتے ہوئے
اجاڑ دشت میں اپنا مکا ن چاہتا ہے
دھندلے آئینے میں صورت نہیں دکھلا سکتے
دل اگر صاف نہیں ہے تو عبادت کیسی
بگڑے بگڑتے نظر آ نے لگے اُجلے چہرے
آئینے ہوگئے نقاد خدا خیر کرے
یوں تو ان کے دوسرے مجموعہ کلام ”لہجہ گل“ میں لاتعداد اشعار ایسے ہیں کہ بس پڑھتے چلے جائیں اور واہ واہ کرتے جائیے مگر ”لہجہ گل“ پر ایک سرسری سی نظر ڈال نے پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ تواترسے اشعار کہنےسے ان کی شاعری میں بے حد کھار آیا ہے کہ وہ صرف غزل میں بلکہ نظم میں بھی وہ بلندی پر نظرا ٓئے ہیں،جب ہی تو انہوں نے اپنے تیسرے مجموعہ کلام ”خوشیو کے پھول،درد کی شب م“کی آمد کی نویدنے مسرت دی ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اپنے تیسرے مجموعہ کلام ”خوشیو کے پھول، درد کی شب م، کی خبر وہی دے سکتا ہے جسے شاعری سے گہرا شغف ہو اور جو انہماک کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہو۔یقینا اہل بھوپال کی طرح ہم بھی ’لہجہ گل“ کی کامیاب اشاعت کے بعد فاروق انجم کے تیسرے مجموعہ کلام ”خوشیوں کے پھول،درد کی شب م، کے منتظر ہیں جو بھوپال کے ادبی افق پر یقینا پسندیدگی کی سند حاصل کرے گی۔ہماری نیک خواہشات فاروق ا نجم کے ساتھ ہیں اس دُعا کے ساتھ کہ خدا کرے زورِ شاعری ہو اور زیادہ۔