لکھنو31مئی: شری کرشن جنم بھومی اور متھرا شاہی عیدگاہ معاملے میں کئی دنوں سے چل رہی سماعت کے بعد جمعہ (31 مئی) کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ جسٹس مینک کمار جین کی بنچ اس معاملے پر سماعت کر رہی تھی۔ عدالت میں متھرا واقع شری کرشن جنم بھومی اور شاہی عیدگاہ کیس میں داخل سول سوٹ (دیوانی مقدمہ) کے جواز پر چل رہی سماعت جمعہ کو تقریباً دو گھنٹے کے بعد مکمل ہوئی، جس کے بعد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ اس معاملے میں ہندو فریق نے یہ دلیل پیش کی کہ شاہی عیدگاہ مسجد کا شری کرشن جنم بھومی کی زمین پر ناجائز قبضہ ہے۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ مسجد کمیٹی کا زمین پر کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ حالانکہ 1669 سے یہاں لگاتار نماز ادا کی جا رہی ہے۔ ہندو فریق کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلے مندر کو توڑا گیا اور پھر اسی جگہ پر شاہی عیدگاہ مسجد بنائی گئی۔ بعد ازاں بغیر مالک ہونے کے وقف بورڈ نے اسے وقف ملکیت قرار دے دیا۔ اے ایس آئی کی طرف سے بھی اسے نزول اراضی بتایا گیا ہے۔ اس سے قبل مسجد فریق نے جمعرات کو اپنی بات رکھتے ہوئے کہا تھا کہ مندر کے فریقین کے پاس مقدمہ داخل کرنے کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ حالانکہ مندر فریق کی طرف سے کہا گیا تھا کہ معاملے کو لٹکانے کے لیے بحث دہرائی جا رہی ہے۔ شاہی عیدگاہ مسجد کو ناجائز بتاتے ہوئے ہٹانے کے مطالبہ میں 18 سول سوٹ داخل کیے گئے ہیں۔ مسجد فریق نے ان مقدمات کے جواز پر سوال اٹھایا ہے۔
واضح رہے کہ 2020 میں ایڈووکیٹ رنجنا اگنی ہوتری اور سات دیگر لوگوں نے مل کر متھرا سول کورٹ میں ایک مقدمہ داخل کیا تھا۔ عرضی کو شروع میں ایک سول کورٹ نے خارج کر دیا تھا، لیکن بعد میں ضلع کورٹ نے اسے قابل سماعت مانا۔ ڈھائی سال بعد اسی عدالت میں مزید 17 عرضیاں داخل کی گئیں۔ مئی 2023 میں ہائی کورٹ نے فیصلے کے لیے سبھی 18 عرضیوں کو طلب کیا تھا۔