نئی دہلی 27ستمبر:دہلی کے صدر بازار میں واقع دہلی کی شاہی عیدگاہ کو لے کر تناؤ اور اقلیتی فرقہ میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ سڑک کو چوڑا کرنے کی وجہ سے رانی لکشمی بائی کے مجسمہ کو چوراہے سے ہٹا کر شاہی عیدگاہ پارک کی زمین پر لگانے کی خبر سامنے آتے ہی یہ تناؤ بڑھ گیا ہے۔ عدالت نے اس معاملے میں پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ جس زمین پر یہ مجسمہ لگایا جا رہا ہے وہ دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کی ملکیت ہے، جبکہ شاہی عیدگاہ کمیٹی نے عدالت میں کہا ہے کہ یہ جگہ دہلی وقف بورڈ کی ہے۔ آج رانی لکشمی بائی کے مجسمہ کو نصب کرنے کا کام سخت سیکورٹی کے درمیان شروع ہو گیا تھا، لیکن تازہ ترین خبروں کے مطابق اسے رکوا دیا گیا ہے۔ عدالت اس معاملے کی سماعت اب یکم اکتوبر کو دوبارہ کرے گی۔ اس معاملے پر عام آدمی پارٹی (عآپ) اور بی جے پی آمنے سامنے تھی، لیکن دہلی کانگریس کے سابق وزیر اور دہلی وقف بورڈ کے سابق چیئرمین ہارون یوسف نے اس سب کے لئے بنیادی طور پر دہلی کی حکمراں جماعت، جو ایم سی ڈی میں بھی برسر اقتدار ہے، کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’عام آدمی پارٹی اقلیتی طبقہ کی ہمدرد بننے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن حقیقت میں وہ دہلی کی اقلیتوں کی اتنی ہی بڑی دشمن ہے جتنی بڑی بی جے پی ہے۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ ابھی تک اس علاقہ کے رکن اسمبلی اور دہلی کی عآپ حکومت میں وزیر عمران حسین نے وہاں کا دورہ کیوں نہیں کیا، اور کوئی بیان کیوں نہیں دیا۔ ہارون یوسف نے اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے خود دہلی کے وقف بورڈ نے اقلیتی کمیشن کے مطالبے پر عدالت میں اپنی زمین 79000 گز بتائی تھی، اور اب انہوں نے خود ہی عدالت میں 31000 گز بتائی ہے۔ اُس وقت بھی دہلی کی ریونیو کی وزیر موجودہ وزیر اعلیٰ آتشی تھیں اور اب بھی وہی ہیں۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ یہ کیسے ہوا؟ دہلی کے سابق وزیر ہارون یوسف نے یہ بھی مطلع کیا کہ سال 2017 میں ہی اس سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے پی ڈبلو ڈی نے منظوری دی تھی۔