نئی دہلی 20ستمبر:سپریم کورٹ نے سفارش کے باوجود ججوں کی تقرری نہ ہونے پر حیرانی ظاہر کی ہے اور اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے وضاحت پیش کرنے کو کہا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ کالجیم کے ذریعہ سفارش شدہ زیر التوا عدالتی تقرریوں کی تعداد اور صورت حال کے ساتھ ساتھ تاخیر کے اسباب کی جانکاری دستیاب کرائے۔ یہ ہدایت چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ نے ایک مفاد عامہ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دی ہے۔ دراصل چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ اس معاملے پر سماعت کر رہی ہے۔ اس بنچ میں جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا بھی شامل ہیں۔ بنچ نے آج سماعت کے دوران کہا کہ ’’سپریم کورٹ کالجیم کوئی سرچ کمیٹی (ججوں کے لیے) نہیں ہے، جس کی سفارشات کو روکا جا سکے۔ بنچ نے مرکز کی طرف سے پیش اٹارنی جنرل (اے جی) آر وینکٹ رمنی سے کہا کہ وہ کالجیم کے ذریعہ دیے گئے ناموں کی فہرست دستیاب کرائیں اور بتائیں کہ ’’وہ کیوں زیر التوا ہیں اور کس سطح پر ہیں؟‘‘ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ اگر آپ برائے کرم کالجیم کے ذریعہ دیے گئے ناموں کی فہرست بنا سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ یہ کیوں زیر التوا ہیں اور کس سطح پر زیر التوا ہیں… تو ہمیں بتائیں کہ یہ کیوں زیر التوا ہیں۔ بنچ نے کہا کہ کچھ تقرریاں ابھی مرحلہ میں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ بہت جلدی ہو جائیں گی۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل کے ذریعہ التوا کی گزارش کو توجہ میں رکھتے ہوئے، اس مفاد عامہ عرضی پر سماعت ملتوی کر دی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ میں یہ عرضی ایڈووکیٹ ہرش وبھور سنگھل کی طرف سے داخل کی گئی تھی۔ ایڈووکیٹ ہرش وبھور سنگھل نے اپنی عرضی میں سپریم کورٹ کالجیم کی طرف سے سفارش کیے جانے کے بعد ججوں کی تقرری کو نوٹیفائی کرنے کے لیے ایک معین وقت طے کرنے کی ہدایت دینے کی گزارش کی تھی۔ ایسا اس لیے تاکہ اگر تقرری نہیں کی جا رہی ہے تو ایک معین وقت کے اندر ہی سپریم کورٹ کو دلیلوں کے ساتھ اس کے پیچھے کی وجہ بتائی جائے۔
عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی یقینی مدت نہ طے ہونے کی وجہ سے حکومت تقرریوں کو نوٹیفائی کرنے میں منمانی کرتی رہی ہے۔ اس سے کورٹ پروسیجر میں بلاوجہ تاخیر اور عدلیہ کی خود مختاری پر اثر پڑتا ہے۔