سر سید کے مشن کی اصل روح تعلیم تھی جسے ہر عام و خاص تک پہنچانا ضروری:ایم.ڈبلیو.انصاری ، علیگ(آئی.پی.ایس)سابق ڈی جی

0
4

ملک کی تعلیم و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والوں کی جب بات آتی ہے تو ان میں سر فہرست علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کا نام آتا ہے۔آپ نے نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کرکے تعلیمی میدان میں بڑا کارنامہ انجام دیا بلکہ طلباء کے اندر سائنسی سوچ و فکر بھی پیدا کی ہے۔ اسی لئے ۱۷؍اکتوبر کو سر سید احمد خاں کے یوم پیدائش کے موقع پر پورے ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں جہاں جہاں علیگس ہیں ’یوم سر سید‘ منایا جاتا ہے۔
آج ترقی کے اِس دور میں سر سید کی سائنسی سوچ اور ان کے تعلیمی افکار سے ملک ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ سر سید کے تعلیم مشن کو آگے بڑھانے کے سب سے زیادہ حقدار ان کے علمی وراثاء یعنی علیگس (فارغین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)ہیں۔ قوم کی تعلیمی پسماندگی ، معاشی زبوحالی کو بھی تعلیم کے زیور سے ہی دور کیا جاسکتا ہے جس میں سب سے زیادہ ذمہ داری علیگ برادری کی ہے۔اسلئے کہ تعلیم کا باندھ ہی جہالت کے سیلاب کو روک سکتا ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود علیگس برادری نے تعلیم کے میدان میں کیا کام کیایا کیا کر رہے ہیں؟اور اپنی قوم کی تعلیمی پسماندگی کے پیش نظر مستقبل میں کیا کام کرنا ہے ا س کے لئے کیا پلاننگ و منصوبہ ہے؟ نیز اے ایم یو اولڈ بوائز اب کچھ جگہوں پر کام کر رہا ہے، کافی بیدارء آگئی ہے لیکن اس کا جو نتیجہ سامنے آنا چاہئے تھا وہ اتنا مثبت نہیں آرہا ہے جتنی علیگس برادری سے توقع ہے۔سر سید کے تعلیمی مشن کے یہی لوگ وارث ہیں ۔ حق تو یہ تھا کہ یہ برادری بڑے پیمانے پر ہر صوبے ہر خطے میں جاکر اپنے محسن سر سید احمد خان کے نام سے تعلیم گاہیں قائم کرتی، اور صرف سر سید ہی نہیںاُن کے رفقاء مثلاً حکیم اجمل خاں، مولانا محمد علی جوہر، عبدالمجید خواجہ ، ڈاکٹر ایم ا ے انصاری وغیرہ اور تمام مجاہدین جن کا تعلق علی گڑھ سے ہے یا ہمارے ایسے رہنما جنہوںنے ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں کے نام سے بھی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر میں کہتا ہوں کہ اپنے بزرگوں کے نام سے ہی سہی کہیں یونیورسٹی تو کہیں اسکول،کہیں کوچنگ سینٹر تو کہیں معیاری مدرسہ کا قیام ہونا تھا!لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ تعلیم یافتہ لوگ بھی دیگر لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب نہیں کر پائے اور نہ کوشش کر رہے ہیں جو آج کی سخت ضرورت ہے۔محض ۱۷؍ اکتوبر کو یوم سر سید منانا کافی نہیں ہے۔ سر سید احمد خاں کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے کہ ایک دن خاص کرکے ان کی شخصیت کو بیان کیا جائے بلکہ ان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے ہوئے ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ان کے مشن کی اصل روح تعلیم تھی جسے ہر عام و خاص تک پہنچانا علیگس کی ذمہ داری ہے جسے محض ۱۷؍ اکتوبر کو تقریب کا انعقاد کرکے پورا نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے علاقوں میں اسکولوں کے قیام کا منصوبہ بنانا چاہئے اگر پہلے سے معیاری اسکولس ہیں تو ان کا معاون بننا چاہئے، سائنس اور ٹیکنالوجی سے طلباء کو روشناس کیسے کرایا جائے اس کی فکر کرنا ہوگی۔جگہ جگہ کمپیوٹر سنٹر، لائبریری کا قیام کرنا ہوگا خاص طور پر قوم کے نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانا ہوگا تبھی ان کی ترقی ممکن ہے۔
جب قوم کے نوجوان بچے اور بچیاں سو فیصد ہنرمند اور تعلیم یافتہ ہوں گے تو یقینا ملک ترقی کرے گا۔ روزگار کے مواقع بڑھیں گے، ہر کوئی روزگار دینے والا ہوگا ، بے روزگاری ختم ہوگی، ملک کی باگ ڈور پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی،ملک کی معیشت مضبوط ہوگی۔ کرپشن ختم ہوگا اور تبھی بھارت کا پرچم پوری دنیا میں لہرائے گا۔اور اس طرح ہم سب علیگس سر سید کے صحیح معنوں میں وارث کیلانے کے حقدار ہوں گے ورنہ ہر سال ۱۷؍ اکتوبر آئیگا محفل سجے گی اور ہم سب…