بھوپال:15مارچ:آج موتی مسجد بھوپال میں نماز جمعہ سے قبل اپنے معمول کے خطاب میں مصلیوں کی کثیر تعداد کو متوجہ کرتے ہوئے قاضی شہر مولانا سید مشتاق علی ندوی حفظہ اللہ نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی انسانوں میں ذہنی،ایمانی اور اعمالی اعتبار سے بہت سی خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں، نہ صرف یہ بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان ، باہمی ہمدردی اور اخوت و بھائی چارے کی ایک عجیب فضا قائم ہوتی ہے، چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پر اپنے اموال کی زکوۃ نکالنے کا دستور ہے، اگرچہ زکوۃکی ادائیگی کا براہِ راست رمضان المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ زکوۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن رواج ہی یہ بن چکا ہے کہ رمضان المبارک میں اس کی ادائیگی کی جاتی ہے؛ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس حوالے سے چند باتیں آپ حضرات کے گوش گزار کروں تاکہ اس فریضے کے ادا کرنے والے پوری ذمہ داری سے اپنے اس فریضے کو ادا کریں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہنوں میں رہے کہ ہم معاشرے سے اس فضا کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو اس وقت عمومی طور پر سارے مسلمانوں میں اتنا زور پکڑ چکی ہے کہ زکوۃ رمضان میں نکالنی ہے بلکہ ہم یہ ماحول بنائیں اور اسی کے مطابق دوسروں کی ذہن سازی بھی کریں کہ زکوۃ نکالنے والا اپنی زکوۃ کی ادائیگی میں زکوۃ کے واجب ہونے کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے وقت پر زکوۃ نکالے اور اس کے لئے رمضان کا انتظار نہ کرے۔چنانچہ زکوۃ کن اموال پر واجب ہوتی ہے؟‘‘ پر تفصیلاً اور کچھ دیگر مسائل پر اجمالاً روشنی ڈالی جائے گی۔
زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکی کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں ’’مخصوص مال میں مخصوص افراد کیلئے مال کی ایک متعین مقدار ‘‘کو زکوٰۃ کہتے ہیں۔ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہے ، دل کے اس میلان کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا ہے، اورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، مثلا: مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ۔
ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لئے زکوٰۃ و صدقات کو مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ زکوٰۃ سے مال میں ظاہری یا معنوی اضافہ اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی زکوٰۃ کا نام زکوٰۃ رکھا گیا۔ زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ، اس کی فرضیت شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کا انکار کرنا کفر ہے ، ایسا شخص دائرئہ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جاتا ہے، جیسے نماز کا انکار کرنے والا شخص اسلام سے نکل جاتا ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت ِ مدینہ سے پہلے ہوئی جبکہ دوسری طرف بہت سی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی:؛ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفسِ فرضیت تو ہجرت سے پہلے ہوگئی تھی۔
؛ لیکن اس کے تفصیلی احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔
زکوٰۃ اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراْخروی بھی)تو ایک زائد چیز ہے، دوسرے لفظوں میں سمجھئے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے؛ لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں، ہماری دنیوی و اْخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ فریضہ زکوٰۃ کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں، وہاں اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لئے قرآن ِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کئے جاتے ہیں:
جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اْن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اْن کی پیشانیوں، پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔ ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کر اْس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ ایسا مال آخرت میں اْس کے کسی کام نہ آ سکے گا۔
ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اْس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔
مرتے وقت ایسا شخص زکوٰۃ ادا کرنے کی تمنا کرے گا؛ لیکن اس کے لئے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔
ایسے شخص کیلئے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اْن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔
ایسے افرادکوجہنم میں ضریع، زقوم، گرم پتھر اور کانٹے دار و بدبو دار درخت کھانے پڑیں گے۔ ایسے افراد سے قیامت کے دن حساب کتاب لینے میں بہت زیادہ سختی کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں زکوٰۃ جیسے اہم ترین فریضے کو ادا کرنے کی بھرپور توفیق دے ۔