ریاست کا درجہ مرکزی حکومت سے ملنے والی خیرات نہیں

0
2

سرینگر25ستمبر:جموں و کشمیر جو پہلے ایک ریاست تھی اور اب ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے، اس سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں ریکارڈ ووٹنگ کا گواہ رہا اور اب 10 سال کے وقفہ کے بعد یہاں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ’فرنٹ لائن‘ میگزین کو دئے گئے انٹرویو میں جموں و کشمیر کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے منصوبے، سیاسی ہتھکنڈوں اور دیگر مسائل پر کھل کر بات کی۔ وہ اس بار گاندربل اور بڈگام سے اسمبلی انتخابات لڑ رہے ہیں۔ انٹرویو کے دوران عمر عبداللہ نے کہا کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات کو 10 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران جموں و کشمیر کی صورتحال میں بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ خاص طور پر ریاستی درجہ کو ختم کر کے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔
عمر عبداللہ نے کہا، ’’اس طویل وقفے کے بعد، عوام جمہوری حکومت کی بحالی کے خواہاں ہیں۔ 2018 کے بعد سے جموں و کشمیر میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے اور دہلی ہم پر حکومت کر رہی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایک نئی نسل کے ووٹرز سامنے آ چکے ہیں اور یہ انتخابات ماضی کے انتخابات سے مختلف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن جماعتوں نے پچھلے انتخابات میں ووٹ کا بائیکاٹ کیا تھا