بھوپال، 8 مارچ:اہل ایمان کے نام اپنے پیغام میں آج قاضی شہر حضرت مولانا سید مشتاق علی ندوی نے فرمایا کہ رمضان المبارک کی آ مد آ مد ہے ہر طرف مومن کے اندر اس کے تئیں اظہار مسرت ہے ۔یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کا انتظار مومن آدمی سال بھر کرتا ہے کیونکہ یہ نیکی، برکت، بخشش، عنایت، توفیق، عبادت، زہد وتقوی، مروت، خاکساری، مساوات، صدقہ و خیرات، رضاء الٰہی، جنت کی بشارت، جہنم سے گلو خلاصی کا مہینہ ہے۔اس ماہ مقدس میں مومن کے اندر فکر آ خرت کے ذریعے رب سے ملاقات کی خواہش بیدار ہوتی ہے ۔رمضان اس قدر پاکیزہ مہینہ ہے ۔یہ رب کی طرف سے اس پر ایمان لانے والوں کیلئے عظیم تحفہ ہے ۔اب ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ماہ عظیم الشان کا کیسے استقبال کریں اور کس عمدگی سے اس مہینے کے فیوض و برکات سے اپنے دامن کو بھریں ۔
قاضی شہر نے فرمایا کہ ذرا تصور تو کریں کہ جب آپ کے گھر کسی اعلیٰ مہمان کی آمد ہوتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں ؟ آپ کا جواب ہوگا ہم بساط بھر تیاریاں کرتے ہیں ۔گھر آنگن کو خوب سجاتے سنوارتے ہیں ۔خود بھی ان کیلئے زینت اختیار کرتے ہیں ۔پورے گھر میں خوشی کا ماحول ہوتا ہے اور مہمان کی خاطر تواضع کیلئے پرتکلف دسترخوان لگاتے ہیں ۔جب ایک مہمان کیلئے اس قدر تیاری تو مہمانوں میں سب سے اعلیٰ اور رب کی طرف سے بھیجا ہوا مہمان ہو تو اس کی تیاری کس قدر پر زور ہونی چاہیئے ؟ جواب بہت آسان ہے ۔
رمضان کا مہینہ بے حد عظیم ہے ۔اس کی عظمت کا احساس اور قدرو منزلت کا لحاظ آمد رمضان سے قبل ہی ذہن و دماغ میں پیوست کرلیا جائے تاکہ جب رمضان میں داخل ہوں تو غفلت، سستی،بے اعتنائی، ناقدری، ناشکری، احسان فراموشی اور صیام وقیام سے بے رغبتی کے اوصاف رذیلہ پیدا نہ ہوں ۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ رمضان اتنی اتنی قدر و منزلت والا مہینہ ہے کہ اس کی ایک رات کا نام ہی لیلتہ القدر ہے ۔ترجمہ:بیشک ہم نے قرآن کریم کو لیلتہ القدر یعنی باعزت و خیرو برکت والی رات میں نازل کیا (قرآن)
رمضان جہاں رب کا مہمان ہے وہیں اس کی طرف سے ایک عظیم نعمت بھی ہے ۔عام طور سے انسان کو اس نعمت کا احساس کم ہی ہوتا ہے جو اسے حاصل ہوجاتی ہے لیکن جو نہیں ملتی اس کیلئے تڑپتا رہتا ہے ۔ایک بینا شخص کو آنکھ کی نعمت کا احساس کم ہی ہوتا ہے ۔وہ اپنی بینائی کی ناقدری کرتے ہوئے فلمیں دیکھتا ہے ۔ایسی چیزوں کو دیکھنے میں اپنی بینائی صرف کرتا ہے جن کو دیھنے سے خالق نے منع فرمایا ہے ۔اسی طرح انسان اپنے جسم کے تمام اعضاء کا حساب کرے کہ وہ ان اعضاء کا کہاں استعمال کررہا ہے جب کہ حقیقتاً اسے کہاں کرنا چاہیئے تھا؟
رمضان کی ہر صورت قدر کیجئے اور اپنے رب کی رضا کیلئے روزے رکھیے ۔اس ماہ حیلے بہانے بھی خوب چلتے ہیں ۔سال بھر تندرست و توانا رہنے والے نعمت عطا کے اس با برکت مہینے میں طرح طرح کے عارضے میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی دوائیں چلنے لگتی ہیں اور وہ روزے سے رخصت لے لیتے ہیں۔یاد رکھیں آپ کے ان حیلوں بہانوں سے اللہ خوب واقف ہے ۔زبردست حساب لیگا ۔لہذا بلا کسی شرعی عذر کے روزے سے بچنے کیلئے خود کو کسی مرض میں مبتلا نہ کیجئے ۔روزے کے ساتھ تراویح کا بھی اہتمام کیجئے اور پورے رمضان تراویح پڑھیے ۔یہ خیال انتہائی لغو اور فاسد ہے کہ آپ نے کسی مسجد میں دس روز میں ایک قرآن سن لیا اور اب بیس دن کی تراویح معاف ہوگئ ۔نماز تراویح رمضان کا چاند نظر آنے کے بعد سے عید کا چاند نظر آنے تک سنت مؤکدہ ہے اور اس کا ترک قابل تعذیر ہے ۔کوشش کریں کہ ایسے حافظ قرآن کی اقتدا میں نماز تراویح ادا کریں جو قرآن صاف صاف صحت و مخارج اور سکون سے پڑھتا ہو ۔رمضان کے تقاضے کو ہر ممکن حد تک پورا کریں ۔یہی ایمان کا مظہر اور اللہ کی خواہش ہے ۔اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ماہ مبارک کی خوب خوب قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔