بھوپال:26؍فروری:(پریس ریلیز ) گذشتہ دنوں ۱۶؍ فروری ۲۰۲۵ء؁ کے روزنامہ راشٹریہ سہارا کی خبر کے مطابق جئے پور راجستھان میں اُردو کو بند کرنے اور سنسکرت کو شروع کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ اسکولوں میں اردوکو بند کرکے سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر پڑھایا جائے۔
واضح رہے کہ اُردو کی تعلیم کو بند کرنے کا فیصلہ نہ صرف تعلیمی معیار پر حملہ ہے بلکہ یہ ہماری تہذیبی و ثقافتی وراثت کو بھی مٹانے کے مترادف ہے۔ یہ فیصلہ تعصب، تنگ نظری اور زبانوں کے احترام کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ تہذیب، تاریخ اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اردو زبان نہ صرف خطۂ راجستھان کی تہذیبی میراث کی علامت ہیں بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں آج اُردو کا بول بالا ہے۔ اردو نے ادبیات، شاعری، اور نثر میں دنیا بھر میں اپنا مقام بنایا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے ہر ملک میں اُردو بولنے والے لوگ موجود ہیں اور وہ سب ترقی یافتہ ممالک ہیں نیز تمام بڑی بڑی یونیورسٹی میں شعبہ اُردو قائم ہیں ۔
اردو میں تعلیم کو ختم کرنا طلباء کو ان کی تاریخ اور ثقافت سے دور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ زبان نہ صرف ادبیات بلکہ فلسفہ، سائنس، اور مذہبی علوم کی بھی حامل ہیں۔ اس پیاری زبان کو نصاب سے نکالنا طلباء کو ان علوم سے محروم کر دے گا جو ان کے فکری ارتقاء میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
راجستھان حکومت کا یہ فیصلہ نہ صرف تعلیمی نقصان کا باعث ہے بلکہ یہ ثقافتی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ زبانیں تہذیبوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہوتی ہیں اور ان پر پابندی لگانا مختلف طبقات کے درمیان فاصلے پیدا کرے گا۔
اردو پر پابندی، بھارت میں زبان کی آزادی خطرے میں : یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت کے آئین کے مطابق، ہر شہری کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اردو کو بند کرنا اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے اور یہ تعلیمی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف بھی ہے۔
اس وقت پورے بھارت سے یہ آواز اُٹھ رہی ہے کہ راجستھان حکومت کا یہ فیصلہ بھارت کے آئین کے خلاف تو ہے ہی بھارتیہ گنگا جمنی تہذیب کو بھی داغدار کر رہا ہے۔ اسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے تاکہ تعلیمی اور ثقافتی نقصانات سے بچا جا سکے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ زبانوں کے فروغ کے لئے مثبت اقدامات کرے، نہ کہ انہیں دبانے کے لئے ایسے غلط فیصلے صادر کرے۔ اردو کی حفاظت صرف زبان کی حفاظت نہیں بلکہ ہماری تہذیب اور ثقافت کی بقا کی ضمانت بھی ہے۔
غور طلب ہے کہ اسکولوں میں اردو کی تعلیم کو بند کرنے کا فیصلہ صرف ایک تعلیمی پالیسی نہیں، بلکہ ایک زبان کے قتل عام کی سازش ہے۔ یہ صرف اردو کے حروف نہیں مٹائے جا رہے، بلکہ بھارتیوں کی شناخت، ہماری ثقافت اور ہماری تاریخ کو مٹانے کی کوشش ہے۔
آج اردو کو نصاب سے نکالا جا رہا ہے، کل ہمارے بچوں کو اپنی زبان بولنے میں بھی دشواری ہوگی۔ کیا راجستھان کے باشندے اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنی شناخت کے خاتمے پر بھی خاموش ہیں؟ یہ خاموشی ہمارے وجود کے خاتمے کی گواہی دے رہی ہے۔
اردو صرف ایک زبان نہیں، یہ ہم تمام بھارتیوں کی تہذیبی میراث ہے۔ غالب، اقبال، منشی پریم چند، فیض احمد فیض،فراق گھورکھپوری، گوپی چند نارائن اور مجروح کی شاعری اسی زبان میں ہے۔ ہمارے بزرگوں کی دعائیں اور ہماری ماؤں کے لوریاں اسی زبان میں تھیں۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزازِ سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
خاص طور پر راجستھان کے تمام اُردو داں حضرات اور عام طور پر تمام محبان اُردو اس بات کو جان لیں کہ خاموشی ہمیشہ ظلم کو تقویت دیتی ہے۔ اگر آج ہم نے زبان کے حق کے لئے آواز بلند نہ کی، تو یہ خاموشی جرم بن جائے گی۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن زبانیں اور ثقافتیں ہمیشہ کے لئے ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہماری بقاء کا مسئلہ ہے۔
الغرض یہ کہ اردو بولنے والے متحد ہوکر مشترکہ آواز بلند کریں۔راجستھان کے والدین اس بات کا مطالبہ کریں کہ ان کے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے ان کے حقوق سے انہیں محروم نہ رکھا جائے۔ سوشل میڈیا، عدالتوں، اور عوامی اجتماعات میں اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یہ وقت خواب غفلت سے جاگنے کا ہے۔ اگر آج ہم نے جدوجہد نہ کی، تو کل ہماری شناخت تاریخ کے صفحات میں دفن ہو جائے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بیدار ہوں، متحد ہوں اور اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنے حقوق کے لئے میدان میں آئیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اردو کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ نہیں! یہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ ہمیں اپنی جڑوں سے کاٹ کر ہماری شناخت کو مٹا دیا جائے۔ گنگا جمنی تہذیب، ہندو مسلم مشترکہ وراثت کو ختم کر دیا جائے۔ جب زبان ختم ہو جائے گی، تو تاریخ بھی بدل دی جائے گی۔ ہمیں ان ہتھکنڈوں کو سمجھنا ہوگا اور اس کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا۔