بھوپال، 24 جنوری: ملک میں ووٹنگ کے عمل میں ای وی ایم کے استعمال کو لے کر طویل عرصے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ دگ وجے سنگھ نے بدھ کو ماہرین کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
یہ پریس کانفرنس بھوپال مدھیہ اسمبلی حلقہ کے ایم ایل اے عارف مسعود کے ذریعہ نیلم پارک میں منعقد کی گئی تھی۔ پریس کانفرنس میں ای وی ایم جیسی مشین سے لائیو ڈیمو دکھایا گیا جس سے یہ ظاہر کیا گیا کہ کس طرح نہ صرف ای وی ایم میں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے بلکہ وی وی پی اے ٹی سے نکلنے والی پرچی بھی پوری طرح سے قابل بھروسہ نہیں ہوتی ہے۔ خود صحافیوں سے کہا گیا کہ وہ اس ای وی ایم کا بٹن دبا کر اپنا ووٹ ڈالیں اور پھر انہیں دکھایا گیا کہ جس نشان پر انہوں نے بٹن دبایا تھا اس کو ووٹ دینے کے بجائے دوسرے نشان کے لیے ووٹ ڈالا گیا۔
راجدھانی بھوپال میں منعقدہ اس پریس کانفرنس کے دوران دگ وجے سنگھ نے میڈیا کے سامنے ای وی ایم ماہر اتل پٹیل سے ووٹنگ کے پورے عمل کا ڈیمو دلوایا۔ اس دوران ایک ای وی ایم میں 10 ووٹ ڈالے گئے۔ سیب، کیلا اور تربوز انتخابی نشان تھے۔ اس دوران زیادہ تر صحافیوں نے کیلے کے نشان پر ووٹ ڈالے تاہم نتائج چونکا دینے والے تھے۔ حتمی نتیجے میں سیب کو زیادہ ووٹ ملے۔
اس موقع پر بھوپال مدھیہ اسمبلی حلقہ کے ایم ایل اے عارف مسعود نے کہا کہ 2013 میں جہانگیرآباد کے بوتھ نمبر 90 پر میرے انتخابی حلقے میں یہی ہوا تھا۔ نیچے کا بٹن دبانے پر کمل کے انتخابی نشان پر لائٹ جل رہی تھی۔پریس کانفرنس کے دوران دگ وجے سنگھ نے کہا کہ 140 کروڑ کی آبادی والے ملک میں جہاں 90 کروڑ ووٹر ہیں، کیا ہمیں یہ سب فیصلہ کرنے کا حق ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دینا چاہیے؟ پورے انتخابی عمل کے مالک نہ ووٹر اور نہ ہی افسران و ملازمین ہیں۔ اس کا مالک وہی ہے جو سافٹ ویئر بناتا اور اپ لوڈ کرتا ہے۔ دگ وجے سنگھ نے کہا کہ پہلے کلکٹر طے کرتے تھے کہ کون سی ای وی ایم کس بوتھ پر جائے گی، اب اسے رینڈمائزیشن کے نام پر الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر سے لوڈ کیا جاتا ہے۔ مشین سافٹ ویئر کی بات مانے گی آپریٹر کی نہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ نے مرکزی الیکشن کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں اور دباو میں ہے۔ ہمیں الیکشن کمیشن سے غیر جانبداری کی امید ہے۔ لیکن ای وی ایم کا سارا کام پرائیویٹ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ جب سافٹ ویئر سب کچھ کرتا ہے تو پھر وہی سافٹ ویئر فیصلہ کرے گا کہ کس کی حکومت بنے گی۔ الیکشن کمیشن نے خود آر ٹی آئی کے جواب میں کہا ہے کہ اس کے پاس کوئی تکنیکی ٹیم نہیں ہے۔