نئی دہلی، 14مئی (یو این آئی) اتر پردیش اے ٹی ایس کی جانب سے دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت دو مختلف مقدمات میں گرفتارگیارہ مسلم نوجوانوں کو چارج شیٹ داخل نہ کرنے پر ضمانت پر رہا کیئے جانے کا لکھنؤ ہائی کورٹ نے آج تاریخی حکم صادر کیا۔ جمعیۃعلماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق لکھنؤ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس عطاء الرحمن مسعودی اور جسٹس منیش کمار نگم نے 16 اپریل کو ضمانت عرضی پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ آج جسٹس عطاء الرحمن مسعودی نے فیصلہ صادر کیا۔ یو اے پی قانون کی دفعہ 43(ڈی) کی خلاف ورزی کرنے پر ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت منظور کی گئی۔ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں کہا کہ تفتیشی ایجنسی نے متعینہ مدت میں چارج شیٹ عدالت میں داخل نہیں کی اور تفتیش کے لئے اضافی وقت طلب کرتے وقت ٹرائل کورٹ نے ملزمین کے اعتراضات کی سماعت نہیں کی تھی جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر ملزمین کی ضمانت منظور کی جس کی وجہ سے یو پی اے ٹی ایس کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا ارشدمدنی نے لکھنوہائی کورٹ کے فیصلہ کا استقبال کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان معنوں میں یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے کہ متعینہ مدت کے اندرچارج شیٹ داخل نہ کرنے کے سبب ملزمین کو ضمانت دیدی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم 18ماہ بعد ان 11افراد کے رہائی کا خیرمقدم کرتے ہیں، ملزمین کے اہل خانہ کے لئے بلاشبہ یہ انتہائی خوشی کاموقع ہے کہ یہ ساعت طویل انتظارکے بعد آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا مدنی نے اس امر پر سخت مایوسی کا اظہارکیا کہ اس طرح کے معاملہ میں پولس اورتفتیشی ایجنسیاں جان بوجھ کر رخنہ ڈالتی ہے اور چارج شیٹ پیش کرنے میں ہیلوں اوربہانوں کا سہارالیتی ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ قانون میں یہ التزام موجودہے کہ نوے دنوں کے اندرچارج شیٹ پیش کردی جانی چاہئے، لیکن اس طرح کے زیادہ ترمعاملوں میں اس قانونی التزام سے روگردانی کرتے ہوئے دھڑلے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں جیساکہ اس معاملہ میں ہوا۔ اترپردیش اے ٹی ایس نوے دنوں کے اندرجب چارج شیٹ نہیں پیش کرسکی تو اس نے نچلی عدالت سے مزید نوے دنوں کی مہلت حاصل کرلی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جان بوجھ کر ایسا کیاجاتاہے تاکہ ملزمین کو جلد ضمانت نہ مل سکے اورانہیں زیادہ عرصہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھاجاسکے، اس معاملہ میں جنہیں گرفتارکیا گیا ان کاتعلق سہارنپوراورمظفرنگر علاقہ سے ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں بے پناہ خوشی ہے کہ جمعیۃعلماء قانونی امدادکے نتیجہ میں لکھنوہائی کورٹ سے ان نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی ممکن ہوئی لیکن یہ افسوسناک سوال بہرحال موجودہے کہ پولس اوردوسری تفتیشی ایجنسیاں اس طرح کے معاملوں میں ایمانداری اورفرض کامظاہرہ کرنے کی جگہ آخرکب تک جانبداری اورتعصب کا مظاہرہ کرتی رہیں گی؟ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ کسی بھی شہری کو انصاف کے حصول سے دانستہ محروم رکھنے کی کوشش کی جائے دہشت گردی سے جڑے بیشتر معاملوں میں اسی طرح کارویہ اپنایاجاتا ہے،ہم مسلسل اس سنگین ناانصافی کے خلاف آوازاٹھارہے ہیں مگر افسوس پولس اورتفتیشی ایجنسیوں کی کوئی جواب دہی طے نہیں کی جاتی چنانچہ وہ بے خوف ہو کر قانون کے نام انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کررہی ہیں۔ انہوں نے آخرمیں کہا کہ یہ امید افزابات ہے اورپہلی بارایسا ہواہے کہ جب متعینہ مدت کے اندرچارج شیٹ داخل نہیں کرنے پر عدالت نے ملزمین کو ضمانت پر رہائی کے احکامات صادرکئے ہیں، اس طرح کے دیگر معاملوں میں یہ فیصلہ ایک نظیر بنے گا۔ قابل ذکرہے کہ ملزمین کو قانونی امداد جمعیۃ علماء قانونی امدادکمیٹی کی جا نب سے مہیا کرائی گئی تھی۔ ملزمین کے دفاع میں مختلف تاریخوں پر سینئر ایڈوکیٹ او پی تیواری کے ہمراہ پر ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ فرقان پٹھان اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے بحث کی تھی۔
واضح ہوکہ القاعدہ برصغیر نامی دہشت گرد تنظیم کے مبینہ رکن ہونے کے الزامات کے تحت یو پی اے ٹی ایس نے ملزمین1۔ لقمان احمد2۔ محمد حارث 3۔آس محمد4۔ محمد علیم5۔ محمدنوازش انصاری6۔مدثر7۔ محمد مختار8۔قاری شہزاد 9۔ علی انور کو گرفتار کیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ہندوستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینا چاہتے تھے جبکہ یو پی اے ٹی ایس نے ہی جیش محمد نامی تنظیم سے مبینہ تعلق کے الزامات کے تحت1۔ محمد ندیم2۔حبیب السلام کو گرفتار کیا تھا۔ملزمین کا تعلق یو پی کے مختلف شہروں سے ہے۔ملزمین کی ضمانت عرضیاں ٹیکنیکل گراؤنڈ پر داخل کی گئی تھی کیونکہ تفتیش کے لیئے متعین مدت پوری ہونے کے باوجود تفتیشی ایجنسی نے عدالت میں چارج شیٹ داخل نہیں کی اس کے برخلاف عدالت نے تفتیشی ایجنسی کی مدت میں اضافہ کی عرضی کو ملزمین کے علم میں لائے بغیر اور انہیں اپنے موقف کا اظہار کرنے کا موقع دیئے بغیر تفتیشی ایجنسی کو مزید 90دنوں کی مہلت دیدی تھی۔
پولس کی جانب سے داخل عرضی کے ساتھ ضروری حلف نامہ بھی عدالت میں داخل نہیں کیا گیا لہذا عدالت کی جانب سے پولس کو تفتیش کی مزید مہلت دینا غیر قانونی ہے،اس لئے قانون کی خلاف ورزی پر ملزمین کو ڈیفالٹ ضمانت پر رہا کیا جاناچاہئے۔
دفاعی وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ متعینہ وقت پر چارج شیٹ داخل نہ کرنا ملزمین کو حاصل بنیادی حقوق کی خلاف وزری ہے۔۔لکھنؤہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے دفاعی وکلاء کے دلائل کی سماعت کے بعد نچلی عدالت اور جیل سے رپورٹ طلب کی، جس سے یہ واضح ہوا کہ نچلی عدالت نے جس دن تفتیشی ایجنسی کی مدت میں اضافہ کی عرضی کی سماعت کی اور اس پر حکم جاری کیا اس دن ملزمین کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ان کے وکلاء کو اس بات کی اطلاع دی گئی تھی۔
حالانکہ دوران سماعت ملزمین کو ضمانت پر رہا کرنے کی استغاثہ نے سخت لفظوں میں مخالفت کی تھی اور عدالت کو بتایا تھاکہ ملزمین ملک دشمنی اور دہشت گردی جیسے سنگین الزامات کا سامنا کررہے ہیں لہذا تکنیکی خامیوں کی بنیاد پر ان کو ضمانت پر نہ رہا کیا جائے لیکن دو رکنی بینچ نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے گیارہ ملزمین کو بڑی راحت دی جو گذشتہ اٹھارہ ماہ کے زائد عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہیں۔
ملزمین کی گرفتاری کے نوے دن مکمل ہوتے ہی ملزمین نے جمعیۃ علماء قانونی امدادکمیٹی کے توسط سے خصوصی عدالت میں ڈیفالٹ ضمانت عرضداشت داخل کی تھی کیونکہ تفتیشی ایجنسی نے چارج شیٹ داخل نہیں کی تھی،نچلی عدالت نے یہ کہتے ہوئے ملزمین کی ضمانت عرضداشت مسترد کردی تھی کہ تفتیشی ایجنسی نوے دن مکمل ہونے بعد مزید نوے دن کی مہلت طلب کرسکتی ہے لہذا عدالت نے انہیں مزید تین مہینوں کی مہلت دے دی ہے۔ ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانتیں مئی 2023/ میں داخل کی گئیں تھیں۔اس مقدمہ میں الہ آباد ہائی کورٹ میں کل پینتیس (35) سماعتیں مختلف ججوں کے سامنتے ہوئیں جس کے دوران دفاعی وکلاء نے مضبوطی سے اپنے دلائل پیش کئے جس کے نتیجے میں گیارہ ملزمین کو ضمانت حاصل ہوئی۔