اُردو اور فارسی کے بے باک، مزاحیہ شاعر ،ہر دل عزیز مرزا اسد اللہ خان جنہیں دنیا غالب کے نام سے جانتی ہے آج ہی کے دن ۱۵؍ فروری ۱۸۶۹ء کو اس دنیا سے رُخصت ہوئے۔ آپ کالا محل، آگرہ کے مغل خاندان میں پیدا ہوئے ۔ جو سلجوک بادشاہوں کے زوال کے بعد سمرقند (جدید ازبکستان میں) چلے گئے۔ ان کے دادا، مرزا قوقان بیگ، ایک سلجوک ترک تھے۔ جو احمد شاہ (1748-54) کے دور حکومت میں سمرقند سے بھارت ہجرت کر گئے تھے۔ انہوں نے لاہور، دہلی اور جے پور میں کام کیے، اور آخر کار آگرہ، یوپی، بھارت میں سکونت اختیار کی۔ ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ مرزا عبداللہ بیگ اور مرزا نصر اللہ بیگ ان کے دو بیٹے تھے۔دنیا کے بارے میں مرزا غالب کا نظریہ تھا کہ دنیا ایک کھیل کے میدان کی مانند ہے جہاں ہر کوئی کسی بڑی چیز کی بجائے کسی نہ کسی دنیاوی سرگرمیوں اور خوشیوں میں مصروف ہے جیسا کہ انہوں نے لکھا:
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتاہے شب و روزتماشا میرے آگے
اردو شاعری ہی نہیں بلکہ نثر بھی مرزا غالب کی مرہون منت ہے۔ ان کے خطوط نے آسان اور مقبول اردو کی بنیاد رکھی۔انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میںاشعار لکھے۔ اگرچہ ان کا فارسی دیوان ان کے اردو دیوان سے کم از کم پانچ گنا لمبا ہے لیکن ان کی شہرت اردو میں ان کی شاعری پر ہے۔
اُردو زبان و ادب سے مرزا غالب کا بہت گہرا تعلق ہے۔ آپ نے اپنا اکثر دیوان اُردو زبان میں لکھا ہے۔ کیونکہ اردو اور بھارت کا بھی ایک رشتہ ہے۔ اُردو زبان کی پیدائش اسی ملک میں ہوئی ہے۔ جسے غالب جیسے عظیم الشان شعرراء نے پوری دنیا میں متعارف کرایا ہے یا یوں کہیں کہ اُردو زبان نے غالب جیسے ہزاروں شعراء کو پوری دنیا میں متعارف کرایا ہے۔ بھارت ہی وہ ملک ہے جس میں سینکڑوں بولیاں اور کئی ز با نیں بولی جاتی ہیں۔ہمارا ملک بھارت زبانوں کا گھر ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں دور دراز سے مختلف قومیں آکر بستی رہی ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر آنے والی قوم اپنے ساتھ نہ صرف اپنی تہذیب لائی بلکہ ان کی زبان بھی اُن کے ساتھ آئی۔ جن سے مل کر نئی زبانیں پیدا ہوئیں۔ اردو کی ابتدا بھی اسی طرح ہوئی۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی اور بودھ کے میل جول اور ان کی زبانوں کے میل جول سے اس زبان کو فروغ حاصل ہواہے اور اب یہ سب کی زبانوں پر ہے کہ اُردو بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن ہے۔اُردو ہی بھارت ہے اور بھارت ہی اُردو ہے۔ جو آپس میں مل جل کر ایک دوسرے کو پروان چڑھا رہی ہیں۔
لیکن اُردو کو اپنے ہی ملک بھارت میں انصاف نہیں مل رہا ہے۔جو زبان آج پورے بھارت کے مختلف خطوں کو آپس میں جوڑنے کا کام کر رہی ہے،نفرت کی آندھی میں محبت کی شمع جلائے ہوئے ہے اسی اُردو زبان کو آج اس ملک میں تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کبھی سرکاری دفاتر میں سے اُردو الفاظ کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے،تو کبھی تعصب کی بناء پر اُردو کو سرکاری اشتہارات سے غائب کر دیا جاتا ہے۔نیز اس میں سیاسی پارٹیاں بھی پیچھے نہیں ہیں ،بی جے پی تو بی جے پی ،کانگریس اور تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی اپنے اشتہارات سے اُردو کو مفقود رکھا ہے۔
یہ سیاسی پارٹیوں کا تعصب، اُردو کے تئیں غیروں میں نفرت کا ماحول، ہر کوئی اُردو کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے در پے ہے لیکن اس کے باوجود شکایت تو ان لوگوں سے ہے جو اُردو سے وابستہ ہیں اور اپنے آپ کو اُردو والا بھی کہتے ہیں۔بلکہ یوں کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ اُردو کے نام سے کھا رہے ہیں لیکن ہم سب کی بے توجہی سے آج جگہ جگہ سے اُردو کو ختم کیا جا رہا ہے۔اُردو اساتذہ کی تقرری نہیں ہو رہی ہے۔نیز حکومت کی طرف سے بھی دیگر کوئی پوسٹ اُردو والوں کے لئے نہیں نکالی جارہی۔اسلئے ہمیں بیدار ہوکر اپنے حقوق کامطالبہ ضرور کرنا چاہئے اور اس کے لئے آواز بلند کرنا چاہئے اور اساتذہ کی تقرری کی مانگ کرنی چاہئے۔ جو سبھی صوبوں کی سرکاریں نہیں کر رہی ہیں۔
آئیے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ اپنی زبان کو بچانے کے لئے ہم خود اپنی ذات سے پہل کریں گے اور یقینا ہماری چھوٹی چھوٹی کاوشوں سے ہی بڑا انقلاب آئے گا۔آج سے ہم سب عزم مصمم کرلیں کہ ہم سب بھارتیہ اپنی زبان و تہذیب کو بچانے کی ذمہ داری خود لیں گے سرکار کے بھروسے نہیں رہیں گے اور نہ ہی کسی ادارے یا شخصیت پر منحصر نہیں رہیں گے۔اس کے لئے سب سے ضروری ہے اُردو رسم الخط۔ہمیں اُردو رسم الخط اختیار کرنا ہوگا۔ہر ایک یہ بھی یقینی بنائے کہ ہمارے گھر میں کم از کم ایک اُردو اخبار ضرور آنا چاہئے۔کبھی کبھار معیاری اُردو میگزن بھی گھر میں لاکر رکھیں اور اپنے گھروالوں سے اس کا مطالعہ کرنے کو کہیں۔ اپنے بچوں کو بھی اُردو سکھائیں۔ چھوٹے چھوٹے اقدامات کرکے ہم خود اپنی زبان کے محافظ بن سکتے ہیں اور اپنی زبان کی بقاء و فروغ میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔
مرزا غالب نے اپنی پوری زندگی اُردو کی خدمت کی ہے آج ان کے یوم یوفات پر ہمیں بھی عہد کرنا چاہئے کہ ہم بھی تادم حیات اُردو کی خدمت کریں گے،یہی صحیح معنوں میں مرزا غالب کو خراج عقیدت ہوگی۔ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔