بھوپال ملک کا سب سے پرامن اور خوبصورت دارالحکومت ہے۔بھوپال کو جھیلوں کی نگری بھی کہا جاتا ہے۔اس کی ابتداء نواب دوست محمد خان سے ہوئی ہے۔بھوپال کی بہت سی تاریخی چیزیں بھوپال کے باشندوں کے لئے باعث فخر ہیں۔ بھوپال ادب اور شاعری کا شہر ہے۔ بھوپال کے لوگوں نے مشاعرہ، قوالی اور دیگر قسم کے ادب اور موسیقی کے میدانوں میں اپنی بہترین کارکردگی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔جن میں سر فہرست شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں یہی وجہ ہے کہ بھوپال کو دار الاقبال بھی کہا جاتا ہے۔ان کے علاوہ کیف بھوپال، شعری بھوپالی، سعید خاں، منظر بھوپالی وغیرہ کا نام نمایاں طور پر لیا جاتا ہے۔شہر بھوپال تاریخی عمارتوں کا شہر ہے۔ تاج المساجد ،صدر منزل ہو، گول گھر، یا شاہجہاں آباد گیٹ ہو یا پھر جامع مسجد و موتی مسجد، ہر ایک کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ہر ایک کا اپنا شاندار ماضی ہے۔یہی سب چیزیں ہمارے شہر کو دوسرے شہروں سے خاص اور مختلف بناتی ہیں۔لیکن آج یہ تمام تاریخی عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں نیز اقبال میدان جیسی جگہ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جہاں سے بلا تفریق مذہب و ملت پروگرام کی آوازیں گونجتی تھیں۔علامہ اقبال کی شخصیت سے کون واقف نہیں ہے یہی علامہ اقبال ہیں جنکا لکھا ہواقومی ترانہ اتنا مقبول ہوا کہ کوئی دوسرا اس مقام تک نہیں پہنچ سکا،آپ نے بھگوان رام پر جو نظم لکھی جس میں انہیں امام ہند کہا گیا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی لیکن آج علامہ تعصب کا شکار ہیں۔ان کے نام سے موسوم میدان پر پابندی لگا دی گئی ہے۔اسی کے مد نظر ’’وراثت بھوپال منچ‘‘ کے زیر اہتمام ایک خصوصی اجلاس کا انعقاد کملا پارک واقع درّانی ہال میں کیا گیا۔اس اجلاس میںممتاز شہری رہنما، سماجی کارکن، تاریخ داں، ثقافتی شخصیات، پولیس ایڈمنسٹریشن سے جڑے لوگ اور مختلف سماجی اور سیاسی حضرات نے شرکت کی۔اس پروگرام میں اتحاد کی مثال قائم کی اور بھوپال کی گنگا جمنی تہذیب ، ساجھی وراثت، آپسی بھائی چارگی کو ایک بار پھر اجاگر کیا۔پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈی جی پی محترم ایم ڈبلیو انصاری نے کہا کہ یہ اجلاس کئی معنوں میں اہم ہے ۔ نہ صرف اقبال میدان بلکہ بھوپال کے کئی تاریخی مقامات ہیں جن کی دیکھ یکھ کرنے والا کوئی نہیں ہے یا تو وہ تجاوزات کا شکار ہوکر حکومت کے قبضے میں چلے گئے ہیں یا پھر خستہ حالی میں یوں ہی ویران پڑے ہیںاور اپنی خستہ حالی پر رو رہے ہیں۔آپ نے مزید کہا کہ آج ہمیں اپنے تاریخی اثاثے کو بچانے کی ضرورت ہے۔
اس کی حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہے ۔کچھ عمارتوں کو وقت کی تباہ کاریوں سے نقصان ضرور پہنچا ہے جبکہ کچھ کے صرف نام اور آثار باقی رہ گئے ہیں۔ جبکہ یہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہیں۔موجودہ حکومتیں ان اثار قدیمہ کو مٹانا چاہتی ہیں، ان کی تاریخ کو مسخ کرنا چاہتی ہیں۔کبھی کسی جگہ کا نام تبدیل کر دیا جاتا ہے تو کبھی کسی سڑک کے نام کو۔نفرت کی سیاست کر سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔انصاف کے نظریہ سے دیکھا جائے تو یہ تمام چیزیں محض عمارت نہیں ہیں بلکہ ہمارے بزرگوں کی وراثت ہے۔جس کو بچانے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔غور طلب ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں کئی شہروں، جگہوں اور سڑکوں کا نام تبدیل کیا گیا ہے جیسے الٰہ آباد کو پریاگراج، ہوشنگ آباد کو نرمداپورم وغیرہ رکھا گیا ہے نیز بھوپال کے حبیب گنج اسٹیشن کا نام تبدیل کرکے رانی کملاپتی ریلوے اسٹیشن رکھا گیا، اسلام نگر کو جگدیش پور تو عیدگاہ ہلس کو گرونانک ٹیکری کیا گیا۔اس کے علاوہ کئی مثالیں موجود ہیں۔ جہاں حکومت نے نیا کوئی کام کرنے کے بجائے محض ناموں کی تبدیلیاں کی ہیں۔ان حالات میں یہ اجلاس یقینا اہمیت کا حامل ہے ۔اس میں اقبال میدان کی موجودہ صورتحال، اس کی تاریخی اہمیت اور ثقافتی کردار پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ اس دوران ایڈووکیٹ سید ساجد علی نے سماجی اور ثقافتی تقریبات پر پابندیاں ہٹانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے تجویز پیش کہ انتظامیہ ترجیحی بنیادوں پر اقبال میدان کی دیکھ بھال اور خوبصورتی کو یقینی بنائے تاکہ یہ جگہ دوبارہ شہر کی ثقافتی اور سماجی تقریبات کا مرکز بن سکے۔