ریاست بھوپال قدیم تاریخی ریاست ہے۔ یہاں ایک زمانے تک نوابوں کا دور رہا ہے۔ ریاست بھوپال کی تاریخ کی اہم شخصیت، ریاست بھوپال کے حکمران ، ریاست کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے بھوپال کے بانی نواب دوست محمد خان آج ہی کے دن ۱۲؍ دسمبر کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ہم اہلیان بھوپال آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
آپ بھوپال کی تاریخ کی ایک اہم شخصیت تھے، ریاست بھوپال کے حکمران تھے۔ان کی حکومت نے ریاست کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا دور 17 ویں صدی میں تھا۔ ریاست بھوپال کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ آپ کا تعلق افغان پشتون خاندان سے تھا، اور وہ ریاست بھوپال کے حکمران نواب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ نواب دوست محمد خان کی حکومت کا دور بھوپال کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوا، کیونکہ ان کی حکمرانی نے ریاست کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلیاں کیں۔
1816 میں جب آپ نے بھوپال کے نواب کے طور پر حکمرانی شروع کی تو بھوپال کی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا چلا گیا۔ ان کی حکمرانی کے دوران، بھوپال کی سرحدوں میں توسیع ہوئی اور ریاست میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔ ان کی حکمت عملیوں کی بدولت بھوپال کو ایک مستحکم اور خوشحال ریاست بنانے میں مدد ملی۔ نیز نواب دوست محمد خان اپنے دور حکومت میں مختلف اصلاحات کیں، جن میں بنیادی طور پر تحفظ (سکیورٹی)، زراعت اور تعلیم کے شعبے میں بہتری لانا شامل تھا۔ انہوں نے بھوپال کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئی اقدامات کئے اور اپنی حکمرانی میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہم آہنگی قائم رکھنے کی کوشش کی۔ان کی حکومت میں بھوپال نے نہ صرف سیاسی استحکام دیکھا بلکہ ریاست کا معاشی نظام بھی مضبوط ہوا۔ انہوں نے اپنی ریاست میں تجارت، صنعت اور زرعی اصلاحات کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں بھوپال کی معیشت نے ترقی کی۔
نواب دوست محمد خان کا دور حکمرانی بھوپال کی تاریخ میں ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے وارثوں نے ریاست بھوپال کا انتظام سنبھالا اور وہ بھی ان کی بنائی ہوئی ترقی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریاست کو مزید ترقی دینے میں کامیاب رہے۔آج بھی بھوپال کی تاریخ میں نواب دوست محمد خان کا کردار ایک سنگ میل کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور ان کی خدمات کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہر بھوپال تاریخی عمارتوں کا شہر ہے۔یہاں تاج المساجد سے لے کر ایشیاء کی سب سے بڑی عیدگاہ موجود ہے۔ جھیلوں کی نگری کہے جانے والے بھوپال کی فضاء نہایت ہی پُر امن ہے۔ نوابی دور کے صدر منزل ہو، شوکت محل ہو،اقبال میدان سے لے کر جامع مسجد و موتی مسجد تک ہر ایک کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ہر ایک کا اپنا شاندار ماضی ہے۔یہی سب چیزیں شہر بھوپال کو دوسرے شہروں سے خاص اور مختلف بناتی ہیں۔
لیکن پچھلے کچھ سالوں میں یہ پیارا شہر اپنی قدیم تاریخی وراثت کو کھوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ نواب دوست محمد خان اور دیگر نوابوں نے اس شہر کی ترقی کے لئے کیا کیا کام نہیں کئے لیکن وہی تاریخی اثاثہ ،عمارتیں اور میدان سب کھنڈر ہوتے جارہے ہیں کوئی ان کی خبر گیری کرنے والا نہیں ہے۔تاریخی جگہوں اور عمارتوں نیز سڑکوں اور اسٹیشنوں کے ناموں کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ اسلام نگر کو جگدیش پور کر دیا گیا تو حبیب گنج کو رانی کملاپتی غرض یہ کہ موجودہ حکومتیں عوامی فلاح و بہبود کے لئے کوئی نیا کام کرنے کے بجائے صرف ناموں کی سیاست کر رہی ہیں۔ بھوپال کی بیگمات نے کتنی ہی زمینیں وقف کی پر اب ان پر ناجائز قبضہ ہے اور جن کا حق تھا کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھائیں وہ تو محروم ہیں اور ناجائز قبضہ بڑھتا جارہا ہے۔ تمام آثار قدیمہ بے توجہی اک شکار ہیں کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب شہر بھوپال میں تقریبا 150 سے زائد قبرستان تھے جو فی الحال محض 40-50ہی رہ گئے ہیں۔جن کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ریاست بھوپال کے بانی نواب دوست محمد کے یوم وفات کے موقع پر اوقاف شاہی انتظامیہ سے خاص طور پر درخواست کرتے ہے کہ بھوپال کے تمام نوابوں کے نام سے ادارے قائم کر دئیے جائیں۔اوقاف شاہی کی اراضی کا صحیح استعمال ہونا چاہئے ایسے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جس سے اُردو، فارسی اور عربی کا فروغ ہو۔ اس کے علاوہ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ تمام قدیم تاریخی اثاثوں کو بچایا جائے۔گنگا جمنی تہذیب کو بچایا جائے۔ شہر بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی کو سنٹر یونیورسٹی بنایا جائے اس سے بھوپال تاریخی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ علم کا مرکز بھی بنے گا ۔ نواب پٹودی کے نام سے کھیل میدان بنایا جائے، بھوپال میں ہاکی گرائونڈ بھی بننا چاہئے۔نیز ایسے کام کئے جائیں جس سے سماج کا بھلا ہو، ہر شہری تعلیم یافتہ بنے،بے روزگاروں کو روزگار ملے، غریبوں کا فائدہ ہو ، بیٹیوں کا تحفظ ہو، ہونہار طلباء کی حوصلہ افزائی ہو۔
آج بھوپال کے بانی نواب دوست محمد خان کے یوم وفات پر ہم سب بھوپال کے باشندوں کو عہد کرنا چاہئے کہ بھوپال کی جو وراثت ہمارے بڑے بزرگ چھوڑ کر گئے ہیں ہم سب ان کا تحفظ کریں گے نیز جو تعلیمی ادارے ویران ہو گئے ہیں ہم سب ان کو پھر سے آباد کریں گے اس لئے کہ تعلیم ہی سے ترقی ممکن ہے ۔ اوقاف کی اراضی اور قبرستانوں کا جو حال ہے اس کے لئے کہیں نہ کہیں ہم سب ذمہ دار ہیں۔ہمیں اس کی بھی فکر کرنا ہوگی ،اگر اب بھی ہم نہیں جاگے تو یاد رکھئے آنے والے وقت میں ہمیں اپنے مردوں کو دفنانے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔ آنے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔