بھوپال، 23 مارچ (ایجنسیاں) مدھیہ پردیش کے دھار کی بھوج شالہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم پر ایک سروے کیا جا رہا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیمپس مندر ہے یا مسجد۔ مسلم کمیونٹی کے لوگ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس وجہ سے جمعہ کو پہلے دن سروے میں حصہ نہیں لیا۔ دلیل یہ ہے کہ جب 1902 میں ایک سروے ہوا تھا جس میں اسے مسجد قرار دیا گیا تھا تو پھر یہ نیا سروے اور یہ تنازعہ کیوں؟
روزنامہ بھاسکر کے مطابق صحافی نے دھار شہر کے قاضی وقار صادق سے ہر پہلو پر بات کی۔ انہوں نے بیباکی سے جواب دیا۔ پرانے ریکارڈ اور تصویروں کے ساتھ ہندو کی طرف سے تصویروں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اسے مسجد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ جب بات اتنی آگے بڑھ گئی ہے تو ہم یہاں ہر جمعہ نہیں، اب ہر روز پانچوں وقت کی نماز کی اجازت چاہتے ہیں۔
مسلم کمیونٹی کے لوگ سروے کی ضرورت پر ہی سوال اٹھا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
ایک سروے 1902-03 میں کیا گیا تھا۔ لسٹنگ میں کمال مولا جامع مسجد قرار دیا گیا تھا۔ جب پرانا سروے موجود ہے تو پھر نئے سروے کی کیا ضرورت ہے، یہ ہم پوچھ رہے ہیں۔ اسے کمال مولا مسجد بھوج شالہ سمجھا جاتا ہے، ہم بھی یہی کہتے ہیں، لیکن اب اس کی تشہیر غلط نام سے کی جا رہی ہے، اس پر بھی اعتراض ہے۔
سوال: ہائی کورٹ کے حکم پر سروے ہورہا ہے، اس پر اعتراض کیوں؟
جواب: یہ وہ جگہ ہے جو بے جان ہے۔ کوئی درخت یا پودا تو نہیں ہے کہ نئے پھل، پھول اور شاخیں نکل آئیں۔ اگر نئے سروے میں کچھ چیزیں سامنے آتی ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ کہیں سے لاکر تو نہیں رکھ دی گئیں۔ اگر ایسا ہوا تو سروے ہی گمراہ کر دے گا۔
سوال: ہندو سماج نے اپنے دعوے کی حمایت میں تصاویر پیش کی ہیں، کیا آپ نے انہیں دیکھا ہے؟
جواب: اس سلسلے میں ہندو برادری 1998 میں ہائی کورٹ بھی گئی تھی۔ مرکز میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی۔ حکومت نے اندور ہائی کورٹ میں جواب دیا تھا کہ یہ کمال مولا مسجد ہے۔ یہاں نہ کبھی کوئی تصویر رہی، نہ یہ بھوج شالہ ہے نہ ہی مندر۔ یہاں پر غیرمستعمل سامان کہیں اور سے لاکر رکھا گیا ہے۔ ثبوت اور تصویریں ہمارے پاس بھی ہیں۔
سوال: آپ کہہ رہے ہیں کہ ہندوؤں کی طرف سے دکھائی جانے والی مورتی وغیرہ کی تصویریں کہیں اور سے لائی گئی تھی؟
جواب: یہ سامان گپت دور کا ہے۔ ان میں کھنڈہر، محل جو ٹوٹ گئے، وہاں جو اشیاء ہیں اسے الگ الگ جگہوں سے خریدی گئی اور یہاں لائی گئی تھی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تب آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) ہائی کورٹ میں اپنی رپورٹ میں یہ کہہ رہا ہے۔
سوال: لکھے ہوئے شلوک اور کنڈ بھی ہیں، اس پر کیا کہنا ہے؟
جواب: آپ بھوج شالہ کے وسط میں جسے کنڈ بتا رہے ہیں، وہ دراصل مسجد کا وضو خانہ (حوض) ہے۔ تمام مساجد میں دیکھئے، آپ کو مسجد کے فرنٹ کے سامنے وضو خانہ (نمازیوں کا ہاتھ، چہرہ دھونےکی جگہ) ملے گی۔ اب اس کی شکل ویسی نہیں رہی۔ جامع مسجد بھوپال، اٹالہ مسجد جونپور، سیڑھی مسجد احمد آباد، جامع مسجد سری نگر جہاں بھی دیکھیں، آپ کو درمیان میں وضوخانہ نظر آتا ہے۔ شرارتی عناصر نے وضوخانہ کے ڈھانچے سے چھیڑ چھاڑ کی ہے اور اندر جانے کے لیے کنکریٹ کی سیڑھیاں بنا دی ہیں۔ 1902 کے سروے میں یہاں کوئی سیڑھی نہیں تھی۔
سوال: اس پورے معاملے میں اب آپ کیا چاہتے ہیں؟
جواب: ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہندو برادری کو صرف اکشت- پشپ (پھول) لانے کی اجازت ہے تو وہ ویسا ہی کریں۔ اس معاملے میں ہماری 20 سال پرانی عرضی جبل پور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اس کے باوجود اندور ہائی کورٹ میں ایک الگ درخواست کی سماعت ہوئی، جب کہ دونوں درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت ہوئی تھیں۔
سوال: اب آگے کیا کرنے والے ہیں، سروے تو شروع ہوگیا ہے
جواب: ہم تب بھی ہندو سماج کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے لیکن کچھ خود غرض عناصر نے انہیں اکسایا۔ اب پورا واقعہ دیکھ کر ہم ہائی کورٹ بھی جائیں گے اور مطالبہ کریں گے کہ روزانہ 5 بار نماز پڑھنے کی ہدایات دی جائیں۔ ہمارے پاس وہ آرڈر موجود ہے جس میں 1952 تک پانچوں نمازیں ادا کی جاتی تھیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی غروب آفتاب کے بعد نماز پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے کمال مولا مسجد بھوج شالہ کھولی جائے گی۔
واضح رہے کہ دھار کی بھوج شالہ میں جاری اے ایس آئی کے سائنسی سروے کا آج دوسرا دن مکمل ہوا۔ ٹیم صبح 8:10 پر داخل ہوئی تھی۔ وہیں ٹیم 5:40 بجے بھوج شالہ سے واپس نکلی
ذرائع کی مانیں تو بھوج شالہ میں تقریباً 9:30 گھنٹے چلے سروے میں معزز ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق کاربن ڈیٹنگ اور دیگر نئی تکنیکوں کے ساتھ کھدائی اور جی پی ایس-جی پی آر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، معزز ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق کھدائی اور جی پی ایس- جی پی تکنیک کے ساتھ ہی کاربن ڈیٹنگ اور دیگر نئی تکنیک سے بھوج شالہ کا سروے کیا جارہا ہے۔حالانکہ آج بھی سروے ٹیم نے کسی بھی میڈیا اہلکار سے بات نہیں کی اور پولیس کے سخت انتظامات کے ساتھ وہ لوگ بھوج شالہ سے نکل کر گاڑیوں سے روانہ ہوگئے۔