ڈھاکہ7اگست: شورش زدہ بنگلہ دیش میں اقتدار کی تبدیلی کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو گیا ہے، گزشتہ دو دنوں میں پرتشدد ہجوم نے تقریباً 400 پولیس اسٹیشنوں پر حملہ کیا اور کم از کم 50 قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ یہ بات بدھ کو میڈیا رپورٹس میں کہی گئی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی بحران کے درمیان زیادہ تر پولیس اہلکاروں نے محفوظ مقامات پر پناہ لے رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کے کئی تھانوں میں ایک بھی پولیس اہلکار نہیں ہے۔ ‘ڈھاکہ ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق سابقہ عوامی لیگ ​​حکومت کے قریبی سمجھے جانے والے زیادہ تر اعلیٰ عہدیداران انڈرگراؤنڈ ہو گئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 400 کے قریب تھانوں کو پرتشدد ہجوم کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جس میں اسلحہ اور گولہ بارود لوٹ لیا گیا اور عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔ میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ تھانوں پر حملے پیر کی دوپہر سے رات تک بڈہ، جاتراباری، وتارا، اباڈور، میرپور، نارتھ ایسٹ، محمد پور، شاہ علی اور پلٹن سمیت مختلف پولیس اسٹیشنوں پر شروع ہوئے۔ کئی مقامات پر سیکورٹی فورسز اور پرتشدد ہجوم کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں کئی پولیس اسٹیشن تباہ ہوگئے۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے کرسیاں، پنکھے، میزیں اور دیگر اشیاء چرا لیں۔ ایک سینئر پولیس افسر نے کہا، ’’کوئی بھی اپنے تھانوں اور دفاتر میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کر پا رہا ہے کیونکہ پیر کو شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور عوامی غم و غصے میں پچاس سے زیادہ پولیس اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔‘‘ ڈھاکہ ٹریبیون نے رپورٹ کیا کہ خراب حالات کی وجہ سے ہلاکتوں کی صحیح تعداد غیر یقینی ہے۔ ڈھاکہ کے باہر مقیم ایک پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ بڑے پیمانے پر تباہی کی وجہ سے اسے بحال کرنے میں وقت لگے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 1971 کے بعد ہمیں کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔