نئی دہلی 2مارچ:بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کا ایک قصوروار پھر سے اپنی رِہائی کی امید میں سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ بلقیس بانو کے ساتھ عصمت دری اور ان کے رشتہ داروں کے قتل معاملے میں سزا پائے قصورواروں کی سزا میں چھوٹ دے کر رِہا کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے رواں سال جنوری ماہ میں رد کر دیا تھا۔ اس کے بعد سبھی 11 مجرموں نے جیل افسران کے سامنے خود سپردگی بھی کر دی تھی، لیکن اب خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ ان قصورواروں میں سے ایک نے آرٹیکل 32 کے تحت سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ ہندی نیوز پورٹل ’ٹی وی 9 ہندی ڈاٹ کام‘ پر شائع ایک خبر کے مطابق مجرم نے سپریم کورٹ میں جو عرضی داخل کی ہے اس میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی دو رکنی بنچ نے گجرات و مہاراشٹر کے ذریعہ سزا میں چھوٹ سے متعلق اصول کے معاملے میں متضاد فیصلے دیے ہیں۔ ایسے میں مناسب قدم اٹھایا جائے اور معاملے کو از سر نو غور کے لیے بڑی بنچ کے پاس بھیجا جائے۔ دراصل آرٹیکل 32 میں ہندوستانی شہریوں کے بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی سپریم کورٹ پہنچنے کا حق حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32 کو آئین کی روح بھی کہا جاتا ہے۔ اسی آرٹیکل کے تحت بلقیس بانو نے بھی انصاف کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ گجرات حکومت نے ’معافی پالیسی‘ کے تحت 15 اگست 2022 کو بلقیس بانو معاملے کے سبھی 11 قصورواروں کو جیل سے رِہا کر دیا تھا۔ ممبئی میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور ان کے کنبہ کے سات اراکین کے قتل کے الزام میں ان سبھی مجرموں کو 2008 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ بامبے ہائی کورٹ نے بھی اس سزا پر مہر لگا دی تھی۔ 15 اگست 2022 کو جب ان سبھی مجرموں کو رِہا کیا گیا اور معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ گجرات حکومت قصورواروں کو کیسے معاف کر سکتی ہے، سماعت مہاراشٹر میں ہوئی تھی تو رِہائی پر فیصلہ بھی وہیں کی حکومت کرے گی۔