علی گڑھ 8نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے پروفیسروں اور طلبا نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا دل سے خیرمقدم کیا ہے، جس میں ایم یو کو اقلیتی ادارہ قرار دیتے ہوئے اس کا درجے کو برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بینچ نے 4-3 کے تناسب سے اس فیصلے کی حمایت کی۔ اس فیصلہ کو اے ایم یو کے پروفیسروں اور طلبا نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی ادارہ کے قیام کی بنیاد پر اس کا اقلیتی کردار متعین نہیں کیا جا سکتا اور اس بات پر زور دیا کہ ایک ادارہ اپنے مقاصد اور انتظامی اصولوں کے مطابق اقلیتی حیثیت حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر حتمی فیصلے کے لیے تین ججوں کی ایک نئی بنچ تشکیل دی گئی ہے۔ اے ایم یو کے پروفیسر محمد آصف صدیقی نے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک طویل قانونی جنگ تھی لیکن ہم نے اس کیس کی تیاری بہت محنت سے کی تھی۔ اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمیشہ ہندوستانی عدلیہ پر ہمارا اعتماد تھا، جو آج بھی قائم ہے۔‘‘ پروفیسر محمد وسیم علی نے کہا کہ، ’’ہمیں خوشی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ کیا، اس میں وقت ضرور لگا، مگر یہ فیصلہ بالکل درست اور قابلِ تعریف ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فیصلے کا ہمیں مزید فائدہ ہوگا۔‘‘ پروفیسر عصمت علی خان نے اس فیصلے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا، “عدالت کا فیصلہ انتہائی قابلِ تحسین ہے۔ اس میں جو بنیادی تنازعہ تھا، وہ یہ تھا کہ کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں اور اس پر عدالت نے اپنا فیصلہ دے دیا کہ وہ اقلیتی ادارہ ہے۔‘‘ اے ایم یو کے طلبا نے بھی اس فیصلے کو خوشی کے ساتھ سراہا۔ محمد صادق نام کے ایک طالب علم نے کہا، “ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمیں اس سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ حکومت صرف تفرقہ انگیز سیاست کر رہی ہے، لیکن ہمیں سپریم کورٹ سے ہمیشہ مثبت نتیجے کی امید تھی۔” ایک اور طالب علم نے اس فیصلے کو دستوری حق قرار دیتے ہوئے کہا، ” ہمیں اپنے حق میں فیصلہ ملنے کی توقع تھی اور اب یہ فیصلہ ہماری توقعات کے مطابق آیا ہے۔” طلبا نے اس فیصلے کو اپنی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کے تعلیمی مستقبل کو بھی استحکام ملے گا۔