نئی دہلی 20ستمبر:سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کو لے کر کچھ ایسے اندیشے ظاہر کیے ہیں جو بہت اہم ہیں۔ انھوں نے اس کی عملیت اور اس کے ممکنہ اثرات پر فکر ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو سفارشات پیش کی گئی ہیں، وہ خامیوں سے پُر ہیں۔ انھوں نے اس معاملے میں پارلیمنٹ کے اندر بحث کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ بغیر پارلیمانی بحث کے خامیوں کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کی ہوئی میٹنگ کے دوران بدھ کے روز کوود کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی تجویز کو منظوری دے دی گئی۔ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت والی اس کمیٹی نے پہلے قدم کی شکل میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے لیے ایک ساتھ انتخاب کرانے، اور پھر اس کے بعد 100 دن کے اندر مقامی بلدیاتی انتخابات کرانے کی سفارش کی ہے۔ ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ پر بنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس تجویز سے متعلق موصول 21558 مشوروں میں 80 فیصد سے زائد مشورے حمایت پر مبنی ہیں۔ حالانکہ ایس وائی قریشی نے اس رپورٹ میں کئی موجود کئی اہم سفارشات کو خامیوں سے بھرا ہوا بتا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ ہونے والے انتخابات میں پنچایت انتخاب باہر ہو جائیں گے، جبکہ پنچایت میں ہی بڑی تعداد میں مقامی منتخب افسران ہوتے ہیں۔