ایم پی اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام کھرگون میں سلسلہ کے تحت شبیر شاہ آسی کو منسوب ادبی و شعری نشست منعقد

0
1

بھوپال:23؍ستمبر:مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ کھرگون کے ذریعے سلسلہ کے تحت مشہور شاعر استاد شبیر شاہ آسی کو منسوب شعری و ادبی نشست کا انعقاد 22 ستمبر 2024 کو دوپہر 2 بجے انجمن ہائر سیکنڈری اسکول، کھرگون میں ضلع کوآرڈینیٹر قیام الدین قیام کے تعاون سے کیا گیا۔
اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی کے ذریعے مدھیہ پردیش کے ہر ضلع میں منعقد ادبی و شعری نشستوں کا مقصد اردو ادب اور ثقافت کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ نئے ادبا و شعراء کی حوصلہ افزائی کرنا اور انھیں اسٹیج فراہم کرنا ہے ۔
کھرگون کی متذکرہ نشست شبیر شاہ آسی کو منسوب ہے۔ شبیر شاہ آسی کھرگون کے استاد شعراء میں شمار کیے جاتے تھے ۔ اس پروگرام کا مقصد مرحوم شخصیات، شعرا و ادبا کی شخصیت اور ان کی خدمات کو عوام تک پہنچانا ہے ۔کھرگون ضلع کے کوآرڈینیٹر قیام الدین قیام نے بتایا کہ دوپہر 2:00 بجے سلسلہ کے تحت شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کھرگون کے سینیئر ادیب راکیش رانا نے کی اور مہمانان ذی وقار کے طور پر سرفراز بھارتیہ ۔ جھابوا، ڈاکٹر آصف فتح، امجد پہلوان اور درد شجالپوری اسٹیج پر جلوہ افروز رہے۔ اس نشست نشست کی شروعات میں کھرگون کے سینئر ادیب ڈاکٹر اکبر علی نے شبیر شاہ آسی کے فن و شخصیت پر گفتگو کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
انھوں نے کہا کہ شبیر ساہ آسی کو کھرگون کے شعری ادب میں ایک منفرد اور نمایاں مقام حاصل ہے۔جب آسی کھرگونوی نے شاعری کا اغاز کیا تو وہ دور آزادی کی کشمکش کا دور تھا آسی نے ملک کو آزاد ہوتے ہوئے دیکھا تھا اس لیے ان کی شاعری میں آزادی سے قبل اور بعد دونوں کی عکاسی نظر آتی ہے۔آسی کھرگونوی کی شاعری میں روزمرہ کی زندگی، عام لوگوں کے مسائل اور معاشرتی رویوں کی عکاسی ملتی ہے وہ اپنے وقت کے دیگر شاعروں کی طرح اپنی شاعری میں عوامی مسائل، فطرت اور معاشرتی حقیقتوں کی عکاسی بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شبیر شاہ آسی کی شاعری کا بنیادی موضوع محبت، درد اور انسانی تجربات ہیں لیکن ان کے یہاں صرف رومانوی یا ذاتی جذبات کی عکاسی نہیں ملتی بلکہ وہ سماجی ناہمواریوں، طبقاتی فرق اور انسانی حقوق کے مسائل کو بھی بڑے حساس انداز میں بیان کرتے ہیں۔
شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:
ٹھنڈے چولہے کے پاس بیٹھے ہیں
بھوکے بچے اداس بیٹھے ہیں
منصور کمال
اندھیروں میں کبھی ہم پیار کوےگھرنے نہیں دیں گے
ہم اپنے ملک کےمعیار کو گرنے نہیں دیں گے
سرفراز بھارتیہ
اسی اُمّید میں دامن کو ہم پھیلائے بیٹھے ہیں
نہ جانے کب کوئی آنسو تیرے رخسار سے اُترے
قیام الدین قیام
محبت بھائی چارے سے سبھی اک چھت میں رہتے ہیں
سنو تم اے جہاں والوں کہ ہم بھارت میں رہتے ہیں
ساجد پرواز
تمھارے حسن کی تعریف لکھتا پھرتا ہوں
زمانہ ایسے ہی شاعر سمجھ رہا ہے مجھے
شارق علی شارق
لگاتا ہوں میں ڈبکی جب بھی لفظوں کے سمندر میں
تو میٹھا ذائقہ مجھ کو میری اردو سے ملتا ہے
زاہد شاہ زاہد
جو بدزباں ہیں وہ حد سے نکل کے بولتے ہیں
سلیقے والے ہمیشہ سنبھل کے بولتے ہیں
سلیم طاہر
گر گیا پھول جو شاخ سے ٹوٹ کر
اب ترستا ہے وہ تازگی کے لیے
ادریس نوری
دل پہ ہر بات لی نہیں جاتی
زندگی گھٹ کے جی نہیں جاتی
ڈاکٹر لویش راٹھور
کسی ساحر کا جادو ہوں کسی گلشن کی خوشبو ہوں
میں اردو ہوں، میں اردو ہوں، میں اردو ہوں، میں اردو ہوں
ریاض فگار
تجھ کو جی بھرکے دیکھنا تھا مجھے
اور سورج نکلنے والا تھا
مہیش جوشی
دھوکا دغا فریب میں شامل نہیں تھے ہم
سو بار کہیے آپ کے قابل نہیں تھے ہم
ہریش دوبے
سلسلہ ادبی و شعری نشست کی نظامت کے فرائض قیام الدین قیام نے انجام دیے.پروگرام کے آخر میں انھوں نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔