بھوپال:2؍مارچ:مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ، ٹیکم گڑھ کے ذریعے ’’سلسلہ‘‘ کے تحت ٹیکم گڑھ کے مشہور شاعر عبدالشکوررانا اور عظیم مجاہد اشرف علی شاہ کی یاد میں شعری و ادبی نشست کا انعقاد2 مارچ 2024کو دوپہر 1:00 بجے نگر بھون پیلیس، ٹیکم گڑھ میں ضلع کوآرڈینیٹر چاند محمد آخر کے تعاون سے کیا گیا۔
اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ٹیکم گڑھ مدھیہ پردیش ریاست کا ایک ایسا ضلع ہے جہاں اردو کی شمع جلانے والے اور ابھی تک جلاکر رکھنے والے کم نہیں ہیں۔ ان میں سے ایسا ہی ایک نام عبدالشکوررانا کا رہا ہے۔ ان کی ادبی خدمات کو یاد کرنا اہم فریضہ ہے۔ ساتھ ہی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے عظیم مجاہد آزادی اشرف علی شاہ کو بھی اکادمی کے ذریعے یاد کیا جارہا ہے اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔
ٹیکم گڑھ ضلع کے کوآرڈینیٹر چاند محمد آخر نے بتایا کہ منعقدہ پروگرام میں سلسلہ کے تحت دوپہر 1:00 بجے شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ٹیکم کے استاد شاعر قاری اخلاق نے کی اور مہمانان ذی وقار کے طور پر چھترپور کے سینیئر شاعر عامل حبیبی ڈاکٹر این ایم اوستھی اور منی رام کٹھیل اسٹیج پر جلوہ افروز رہے۔نشست کی شروعات میں اما شنکر مشرا اور راجیو نامدیو نے مشہور شاعر عبدالشکوررانا کے فن و شخصیت اور اشرف علی شاہ کے کارناموں پر روشنی ڈال کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
عبدالشکوررانا کے فن و شخصیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اما شنکر مشرا نے کہا کہ عبدالشکور رانا ٹیکم گڑھ کی جدید اردو شاعری کا ایک ایسا اہم نام تھے جنہیں کسی بھی طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بے حد نرم دل اور منکسرالمزاج شخصیت کے مالک رانا صاحب کی سادگی ان کی شخصیت کو اعلیٰ مقام عطا کرتی ہے۔ وہ اردو ادب کے جیتے جاگتے انسائیکلوپیڈیا تھے اور ان کا شمار ٹیکم گڑھ کے استاد شعرا میں ہوتا تھا۔ غزل کی باریکیوں پر ان کی گہری نگاہ تھی اور بحر، اوزان اور عروض پر اچھی گرفت رکھتے تھے۔
وہیں راجیو نامدیو نے عظیم مجاہد آزادی اشرف علی شاہ کی شخصیت اور کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ 10 دسمبر 1920 کو اورچھا ریاست جیور گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ ان کی کم عمری میں ہی ماں باپ کے گزر جانے کے سبب گھر کی تمام ذمہ داریاں ان کے کاندھوں پر آگئیں۔ لیکن ان کا جذبہ ملک کے لیے کچھ کرگزرنے کا تھا اس لیے گھر کی تمام ذمہ داریاں چھوٹے بھائی کو سونپ کر تحریک آزادی میں شامل ہوگئے ۔
انھوں نے سن 1940 میں تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی وجہ سے جنوری 1941 میں انھیں اورچھا ریاست سے ریاست بدر کرنے کا حکم جاری ہوا تھا جو جولائی 1942 تک جاری رہا۔ اس دوران انڈر گراؤنڈ رہتے وہ تحریک آزادی میں سرگرم رہے اور اگست 15 اگست 1947 تک تحریک آزادی میں مسلسل فعال رہے۔
شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:
شاعر کے گھر سے مجھ کو یہ سامان ملا ہے
پیتل کا قلم دان اک دیوان ملا ہے
ظفراللہ خاں ظفر
زندگی تو زندگی ہے کانچ کی پیالی نہیں
ٹوٹ جائے گی تو کیسے دوسری آجائے گی
عامل حبیبی
افسانہ میرا شاید پڑھ کر نہیں دیکھا
پڑھ بھی لیا ہوگا تو سمجھ کر نہیں دیکھا
صابرہ صدیقی
لوگ انجانے عجب خوشبو در و دیوار میں
کیا ضروری ہے کہ دل لگ جائے پہلی بار میں
جابر گل
جب سے آیا ہے سمجھنے کا ہنر لفظوں کا
تب سے آسان سفر زندگی کا لگتا ہے
دیویندر دوبے
پھول کے بدلے کانٹے لائے کچھ جانے پہچانے لوگ
وقت پڑا تو کام نہ آئے کچھ جانے پہچانے لوگ
شکیل خان
ہم بھی دکھلاتے اسے اپنی اڑانوں کا ہنر
باندھ کے رکھا ہے صیاد نے پر کو پر سے
بشیر فراز
واہ کیا نزاکت ہے لوگ ایسا کہتے ہیں
حسن ہے، قیامت ہے، لوگ ایسا کہتے ہیں
چاند محمد آخر
قطرہ قطرہ ہمارا وطن کے لیے
اپنا جیون ہی سارا وطن کے لیے
اما شنکر مشرا
اس طرح کردار میں میرے سمایا تو کہ اب
میں کہیں ہوں ہی نہیں، بس تو ہی تو رہنے لگا
جئےہند سوتنتر
اجالا دیتا ہے انسان کو جو اندھیرے میں
وہ جگنو چاند سے بہتر دکھائی دیتا ہے
عارف حسن
سلسلہ ادبی و شعری نشست کی نظامت کے فرائض اقبال فضا نے انجام دیے.
پروگرام کے آخر میں ضلع کوآرڈینیٹر چاند محمد آخر نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔